مشہور کالم نگار عرفان صدیقی نے اپنے تازہ کالم میں ہمارے دل کی بات کہی ہے۔ ہم ان کے کالم کا تراشا یہاں نقل کر رہے ہیں اور ان کے اس کالم کا دوسرا حصہ آپ یہاں  پڑھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اندھیر نگری اور چوپٹ راجہ یعنی قانون کہتا ہے کہ دوسرے ملک کی شہریت رکھنے والا پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا اور دوسری طرف ایک تہائی ارکان اسمبلی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ واقعی قانون “اندھا” ہوتا ہے یعنی وہ امرا کی باری پر اپنی آنکھوں پر کھوپے چڑھا لیتا ہے۔

گزشتہ روز صبح دم اخبارات پر نظر ڈالی تو میرے نزدیک کالم کا اہم ترین موضوع، اٹھارہویں ترمیم مقدمے کے دوران چیف جسٹس، عزت مآب جسٹس افتخار محمد چوہدری کے یہ ریمارکس تھے کہ ”کیا کوئی ایسا شخص جو ملک میں موجود ہی نہ ہو جو پاکستانی شہری بھی نہ ہو اور جو خود قومی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو، کیا وہ پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے اور کیا ایسے شخص کو یہ اختیار دیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی منتخب رکن اسمبلی یا وزیر اعظم کو ہٹا دے؟“ جسٹس شاکر اللہ جان نے اس سوال پر ایک نئی گرہ لگائی کہ ”کیا اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل شخص، منتخب ارکان اسمبلی کو ہدایات جاری کرسکتا ہے؟“ اسی نوع کے سوالات خواتین کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی اٹھائے گئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ”کیا بالواسطہ طور پر رکن اسمبلی بن جانے والی کوئی خاتون وزیر اعظم بھی بن سکتی ہے؟“
یہ سب انتہائی اہم اور دلچسپ سوال تھے اور میں ان کی کرید میں ذرا اندر تک جانا چاہتا تھا۔ میں نے غیرملکی شہریت رکھنے والے شخص کی نااہلیت کے بارے میں آئین کے آرٹیکل63 پر نظر ڈالی جس کا عنوان ہے۔ ”پارلیمینٹ کی رکنیت کے لئے نااہلیت۔ تریسٹھ سی کا کہنا ہے۔
“A person shall be disqualified from being elected or chosen as, and from being, a member of the Majlis-e-Shoora (Parliament) if he ceases to be a citizen of Pakistan or aquires the citizenship of a foreign state”.
”وہ شخص مجلس شوریٰ (پارلیمینٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چنا جانے یا رہنے کیلئے نااہل قرار پائے گا جو پاکستان کا شہری نہ رہے یا جو کسی اور خارجی ریاست کی شہریت حاصل کرلے“۔
یہ شق 1973ء کے اصل آئین سے چلی آرہی ہے اور اپنے معنی و مفہوم کے لئے کسی تعبیر و تشریح کی محتاج نہیں۔