کچھ عرصے سے ہم نے اپنے بلاگ پر سروے ڈالا ہوا تھا۔ ہمارا سوال یہ تھا کہ کیا جنرل مشرف کو یہی اسمبلیاں دوبارہ صدر منتخب کرلیں گی۔ اکثریت یعنی 63 فیصد کا جواب ہاں میں تھا اور 29 فیصد کا جواب نہ میں تھا۔ جبکہ 9 فیصد کو معلوم نہیں تھا۔

اس رزلٹ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اکثریت کو یا تو ان اسمبلیوں کی نیک نیتی پر شک ہے یا بھر جنرل صدر مشرف کی طاقت پر یقین ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ اسمبلیاں جنرل صدر مشرف کی ہی قائم کردہ ہیں اور اگر وہ آج ان کو معطل کردیں تو کوئی چوں تک نہیں کرے گا۔ بلکہ بہت سارے دم ہلاتے ہوئے جنرل صاحب کے گھر پہنچ جائیں گے اور اس مارشل کا حصہ بن جائیں گے۔ ہم نے اکثر لوگوں کو اب یہ کہتے سنا ہے کہ کل کس نے دیکھا ہے جی، یعنی مسلمانوں کا آخرت پر سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ارکان اسمبلی بھی آج ہی اپنی جھولیاں سرکاری بیت المال سے بھر لینا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو تو پکا یقین ہے کہ کسی بھی وقت وہ اس لوٹ مار سے باہر ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی ہوسکتا ہے لوگ مارشل لا سے اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کیخلاف ایک لفظ بولنے کیلیے تیار نہیں۔ ان کا ڈر بچا ہے کیونکہ اب تک سینکڑوں لوگ اسی جرم کی پاداش میں غائب ہوچکے ہیں۔ ان کے لواحقین احتجاج کرکے تھک چکے ہیں مگر حکومت اتنی بے حس ہوچکی ہے کہ اس پر کسی آہ و بکا کا اثر تک نہیں ہورہا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے غائب کئے جانے اب حکومتی تحویل نہ ہوں اور وہ مال کے بدلے بیچ دیے گئے ہوں۔ جب لوگ ان کے پاس ہی نہیں تو پھر وہ کہاں سے انہیں باہر لائیں۔

ڈرنا اس وقت سے چاہیے جب عوامی کالی آندھی چلے گی اور سب اس میں اڑ جائیں گے۔ بچیں گے وہی جنہوں نے عوام کیلئے کچھ کیا ہوگا۔

ہمارے خیال میں صدر موجوہ اسمبلیوں سے ووٹ تو دوبارہ لے لیں گے مگر اس کے بعد جو ہوگا اس سے وہ بھی ڈر رہے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی وہ بینظیر کی منتیں کررہے ہیں تو کبھی الیکشن ملتوی کرنے کی افواہیں اڑا رہے ہیں۔ چاہے جو بھی ہو یہ سال پاکستان کیلئے بہت اہم ہے۔ اس سال کے آخر میں یہ فیصلہ ہوگا کہ عوام کی بےبسی کن حدوں کو چھو چکی ہے اور اتنے بڑے بحران کے باوجود بھی لوگ احتجاج کریں گے یا گھر بیٹھے کیبل پر انڈین فلمیں دیکھتے رہیں گے۔