پاکستان کے اخبار ايکسپريس نے نشتر ميڈيکل کالج کے سالانہ ثقافتي ميلے ميں پاکستاني مسلمان لڑکي کو لڑکے کے ہاتھ پر راکھي باندھنے کي تصوير جو چھاپي تو اپني آنکھيں کھلي کي کھلي رہ گئيں۔ ساتھ ہي خبر ميں تھا کہ پہلے صرف شادي بياہ پر انڈین رسموں کي کاپي ہوتي تھي اور اب سر عام دوسري رسميں بھي اپنائي جارہي ہيں۔

اس سے پہلے ہم بسنت کو جو خالصتاً ہندو تہوار ہے کو پاکستاني عوامي تہوار بنانے کي تگ د دو ميں مصروف تھے اب لگتا ہے روشن خيال اور اعتدال پسند حکومت راکھي کا تہوار بھي منانے کي تيارياں شروع کردے گي کيونکہ اس تہوار سے بھي روشن خيالي کو عام کرنے ميں مدد ملے گي۔ پتہ نہيں نشتر کالج کي انتظاميہ نے راکھي بندھن ادا کرنے کي رسم اپنے ثقافتي ميلے ميں کيوں ادا کرنے دي اور اس سے وہ عام لوگوں پر کيا تاثر چھوڑنا چاہتي تھي۔

شادي بياہ ميں ماتھے پر بنديا لگانا، دلہن، دولہے کا مل کر ڈانس کرنا، لڑکيوں کا مہندي کي رسم ہندوانہ طريقے سے کرنا، بارات کا استقبال لڑکيوں سے کرانا عام سي بات بنتي جارہي ہے ۔

اگر يہي حالات رہے تو راکھي کے بعد ہوسکتا ہے ہولي کا تہوار بھي منايا جانے لگے کيونکہ ہولي ميں روشن خيالي کچھ زيادہ ہي پائي جاتي ہے۔ اس کے بعد رہ جائے گي مندروں پر حاضري اور پنڈتوں کو شادي میں بلا کر سات پھيرلے لگانے کي بات اور اگر روشن خيالوں کي حکومت مزيد چند سال رہي تو يہ سارے رسم و رواج پاکستان کے شہروں ميں پھيلنے ميں دير نہيں لگے گي۔

سوال يہ ہے کہ کيا ان ساري رسموں کو اپنانے کے بعد جب ہم روشن خيالي کي حدوں کو چھونا شروع کرديں گے تو کيا پاکستان کا معاشرہ ترقي کرجائے گا اور کيا غريب کے حالات بہتر ہوجائيں گے؟ يہ وہ سوال ہے جس پر حکومت کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہيے۔