جہاں بنگلہ دیش نے انڈیا کو ہرا کر ٹورنامنت کا بڑا اپ سیٹ کیا وہاں آئرلینڈ نے پاکستان کو ہرا کر سب کو حیران کردیا۔ اس کیساتھ ہی پاکستان کرکٹ ورلڈ کپ سے باہر ہوگیا۔

 پاکستانی ٹیم کی بدقسمتی ٹاس ہارنے کے ساتھ ہی شروع ہوگئ اور اسے گھاس والی پچ پر پہلے بیٹنگ کرنی پڑی۔ بیٹسمینوں نے انضمام کی نصیحت کو کوئی اہمیت نہ دی اور منجھے ہوئے بیٹمسمین سارے اوورز نہ کھیل سکے حتی کہ انضمام خود دوسری بال پر آؤٹ ہوگئے۔ کمنٹیٹروں کے بقول اگر پاکستان ۱۵۰ سکور کرلیتا تو آئرلینڈ کو مشکلات سے دوچار کرسکتا تھا مگر کامران اکمل، شعیب اور ٹیل اینڈرز لاپرواہی سے شاٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوئے اور پاکستان کا سکور ۱۳۲ سے آگے نہ بڑھ سکا۔

پاکستان کے باؤلر ناتجربہ کاری کی وجہ سے اپنی باؤلنگ سے آئرلینڈ کو دباؤ میں نہ لا سکے اور آئرلیند کے ایک اوپنر نے ہاف سینچری بنا کر پاکستان کو ہرانے کی بنیاد رکھ دی۔

اس میچ میں جو بھی ڈرامہ ہوا اس کی ذمہ داری صرف انضمام پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ اس کی ذمہ دار کوچ سمیت ساری ٹیم اور انتظامیہ ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا سربراہ جنرل مشرف کا دوست ہے جس کا کرکٹ سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔ ڈاکٹڑ نسیم اشرف  پتہ نہیں کونسا ڈاکٹر ہے جو کرکٹ بورڈ جیسے مریض کی بیماری کا پتہ تک نہیں چلا سکا۔ کرکٹ بورڈ کی نااہلی کی وجہ سے شیعب اختر اور محمد آصف ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی نہ کرسکے۔

جب سے باب وولمر کوچ بنا ہے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ویسی ہی رہی ہے جیسی پاکستانی کوچوں کے دور میں ہوتی تھی یعنی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا امیج اب بھی ایک غیریقینی ٹیم والا ہے۔ کوچ باب وولمر پر لاکھوں ڈالر کی عوامی سرمایہ کاری  بھی ٹیم کے کسی کام نہ آسکی۔ کوچ باب وولمر کی بہت ساری ناکامیوں میں سے سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ ٹیم کو اووپننگ بیٹمین نہ دے سکا۔ محمد حفیظ، شعیب ملک، کامران اکمل، یاسر حمید، عمران نذیر، شاہد آفریدی، سلمان بٹ سمیت کتنے لوگوں کو  آزمایا گیا مگر کوئی بھی جوڑی سیٹ نہ ہوسکی۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستانی باؤلروں کو ٹاپ کلاس کا باؤلنگ کوچ بھی میسر نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے ناتجربہ کار باؤلروں کی باؤلنگ بہتر نہ ہوسکی۔

انضمام الحق کی اپنی کارکردگی پچھلے کئ میچوں سے اچھی نہیں رہی اور اس نے صحیح کہا ہے کہ اس شکست کے بعد اسے کوئی بھی ایرپورٹ پر خوش آمدید نہیں کہنے آئے گا۔ دوسرے تجربہ کار بیٹسمینوں یعنی یونس خان، محمد یوسف اور شعیب ملک نے بھی مایوس کیا۔

دراصل یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ جہاں پر کھلاڑیوں نے خراب کارکردگی دکھا کر قوم کو مایوس کیا ہے وہیں پر انہوں نے اپنا ذاتی نقصان بھی کیا ہے اور کوئی شخص جان بوجھ کر اپنی قوم کو دھوکہ تو دے سکتا ہے لیکن اپنا زاتی نقصان نہیں کرسکتا۔ اب ٹیم اپنا اگلا میچ دوچار دن میں کھیل کر ملک واپس لوٹ آئے گی اور اس طرح ہزاروں ڈالر کے معاوضے سے محروم ہوجائے گی جو اسے اگلے راؤنڈ میں شامل ہو کر ملنا تھا۔ اسلیے ہمیں يہ خیال دل میں بھی نہیں لانا چاہیے کہ ٹیم جان بوجھ کر ہاری ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ کرکٹ بورڈ میں بڑی تبدیلیاں کی جائیں اور ساتھ ہی کوچ باب وولمرکو ہٹاکر پاکستانی کوچ کی دوبارہ خدمات حاصل کی جائیں۔ پاکستانی کوچ کیلئے ضروری ہوگا کہ اسے پہلے کوچنگ کی باقاعدہ ٹریننگ دلوائی جائے۔ کوچ باب وولمر کی ایک خوبی یہ سمجھی جاتی رہی ہے کہ وہ انگلش بولتا ہے اور ٹیم کے ہر کھلاڑی پر اس کا گوروں والا رعب ودبدبہ ہے۔ یہ کام تو پاکستانی کوچ بھی کرسکتا ہے اگر اسے ٹریننگ دلوانے کے بعد فری ہینڈ دیا جائے۔ انضمام کے اب ریٹائر ہونے کا وقت آگیا ہے اور اسے چاہیئے کہ وہ ریٹائرمنٹ کا خود ہی اعلان کردے۔۔ کرکٹ بورڈ کا سربراہ کسی ایسے شخص کو بنایا جائے جسے انتظامی امور کیساتھ ساتھ کرکٹ کے اسرارورموز کا بھی پتہ ہو۔ یہ وقت ہے کہ ٹيم کو نئے سرے سے اکٹھا کیا جائے اور ہر شعبے کا ایک انچارج بنایا جائے جو کوچنگ بھی کرسکے۔ اسطرح ہمیں چاہیے کہ ایک سے زیادہ کوچز کا تجربہ کریں جن کا سربراہ ایک ہیڈ کوچ ہو۔

دراصل ہم بحیثیت قوم اوورآل ہی انحطاط کا شکار ہیں اور کرکٹ ٹیم کے ارکان بھی ہمیں میں سے ہیں۔ ہمارے ایک قاری کی بات بھی غلط نہیں ہے کہ ملکی حالات بھی کھلاڑیوں کی کارکردگی پر اثر انداز ہوئے ہوں گے۔ اسلیے ٹیم کی خراب کارکردگی کے ذمہ دار ہم پوری قوم ہیں اور قوم کو اس بحران سے نکالنے کیلیے کسی لیڈر کا انتظار ہے۔ ہم لوگ اس وقت جاہل نہیں رہے بلکہ ہماری اکثریت اب جانتی ہے کہ کون ملک کے ساتھ مخلص ہے اور کون ملک و قوم کو دھوکہ دے رہاہے مگر ابھی ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور آگے بڑھ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی کوشش نہیں کررہے۔ لیکن شعور حاصل کرنے کی اگر یہی رفتار رہی تو بھی چند سالوں میں ہم اس قابل ہوجائیں گے کہ کرپٹ لوگوں کو سسٹم سے باہر کرکے باصلاحیت لوگوں کو آگے لاپائیں اور پھر ان کا احتساب بھبی کریں۔ جس دن قوم اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینے کے قابل ہوجائے گی اس دن ہم کرکٹ ورلڈ کپ بھی جیت لیں گے اور دوسرے شعبوں میں بھی کامیابیاں ہمارے قدم چومیں گی۔