کچھ روز سے اخبار اور ٹی وی بری خبریں ہی چھاپ اور دکھا رہے ہیں۔ مہنگائی، لوٹ مار اور چوربازاری ہی میڈیا کی خبریں ہیں۔ مہنگائی کے علاوہ چند دن تو میڈیا نے صدر اوبامہ کے انڈیا کے دورے کو ایسے کوریج دی جیسے انڈیا پاکستان کا ہی کوئی صوبہ ہو۔ مہنگائی کیخلاف ہڑتالیں اور توڑ پھوڑ کئی دنوں سے جاری ہے۔ اب کابینہ نے آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ پر جی ایس ٹی ریفارمڈ ٹیکس کی منظوری کیساتھ فلڈ ٹیکس کو بھی لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

حکومت نے تیل کی قیمتیں بڑھا کر اور چینی مہنگی کر کے اپنی حلیف جماعتوں کو بھی مظاہروں پر مجبور کر دیا ہے۔ فیصل آباد میں ایم کیو ایم نے مہنگائی کیخلاف مظاہرہ کیا ہے۔

چیف جسٹس جیل سے گیارہ قیدی غائب کئے جانے کا مقدمہ سن رہے ہیں۔ پنجاب کا چیف سیکریٹری کہتا ہے کہ پولیس نے گیارہ قیدی حساس ادارے کے سپرد کیے۔ اٹارنی جنرل کہتا ہے کہ قیدی حساس ادارے کے پاس نہیں ہیں۔ حیرانی والی بات یہ ہے کہ جس جیل میں عام آدمی کا داخلہ ہی ناممکن ہے اس جیل سے گیارہ قیدی غائب ہوگئے اور نہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو معطل کیا گیا اور نہ کسی پر مقدمہ درج ہوا۔

رہی سہی کسر کرکٹر ذوالقرنین نے برطانیہ بھاگ کر پوری کر دی ہے۔ میڈیا یہ بھی کہتا ہے کہ اس نے بکی سے رقم لے کر وعدے کے مطابق کارکردگی نہیں دکھائی۔ اس کے بدلے جب بکی نے اسے ڈرایا دھمکایا تو وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔

کوئی بتائے یہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک وقت تھا مہنگائی بجٹ آنے پر ہوتی تھی۔ اب یہ وقت آ گیا ہے کہ مہنگائی روز ہو رہی ہے مگر عوام ہیں کہ ابھی تک صبر کا دامن تھامے بیٹھے ہیں۔ مگر کب تک بکرے کی ماں خیر منائے گی۔ اس دفعہ تو عام آدمی کیلیے قربانی دینا بھی محال ہو گیا ہے۔ لگتا ہے عوام اب کسی بڑے بکرے کی تلاش میں ہیں۔ دیکھیں پھندا کس کے گلے میں فٹ بیٹھتا ہے۔