انضمام الحق نے اپنی زندگی کا آخری ون ڈے انٹرنیشنل میچ کل بدھ کو زمبابوے کیخلاف کھیلا اور اس کے ساتھ ہی ان کا ون ڈے کرکٹ کا شاندار کیریر اختتام کو پہنچا۔ انضمام الحق نے اپنا پانچواں ورلڈ کپ کھیلنے سے پہلے دعا کی تھی کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے کیریر کا اختتام بھی عمران خان جیسا ہو جنہوں نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا تھا مگر انضمام کی یہ دعا پوری نہ ہوسکی۔ شاید یہی وجہ ہوگی جب انضمامانضمام اپنے آخری میچ میں آؤٹ ہونے کے بعد پویلین واپس جارہے تھے تو رو رہے تھے۔ ایک تو انہیں پاکستان کا ورلڈ کپ سے باہر ہونے کا دکھ ہوگا اور دوسرے وہ اس رسوائی کے خود کو ذمہ دار بھی ٹھہرا رہے ہوں گے۔

 انضمام کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ انہوں نے اپنے سولہ سالہ کیریر میں جو کچھ پاکستان کو دیا وہ اس پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ انضمام کو یہ بات بھی یاد رکھنی ہوگی کہ ورلڈ کپ سے آؤٹ ہونے کے صرف وہی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم ذمہ دار ہے۔ یہ پاکستانی قوم ہی ہے جس نے ڈاکٹر نسیم اشرف جیسے کرکٹ سے نابلد آدمی کو کرکٹ بورڑ کا چیرمین بننے پر احتجاج نہ کیا۔ اس بورڈ کی نااہلی کی وجہ سے انضمام کا باؤلنگ اٹیک کمزور ہوا اور یہی باؤلنگ پاکستان کی ورلڈ کپ سے آؤٹ ہونے کا بہت بڑا سبب بنی۔ آئرلینڈ کے خلاف میچ میں ایک بھی کھلاڑي اچھے کھیل کا مظاہرہ نہ کرسکا۔ جس طرح کوچ کہتے ہیں کہ انہوں نے کھلاڑیوں کی کوچنگ کرنی ہوتی ہے ناں کہ میدان میں ان کا ہاتھ پکڑ کا بیٹنگ اور باؤلنگ کرانی ہوتی ہے اسی طرح انضمام بھی ایک حد تک کھلاڑیوں کی رہنمائی کرسکتے تھے باقی کام کھلاڑیوں کا تھا کہ وہ اچھی کاکردگی کا مظاہرہ کرتے۔ اس کے باوجود یہ انضمام کا بڑا پن تھا کہ انہوں نے سب سے پہلے ورلڈ کپ سے آؤٹ ہونے کی ذمہ داری قبول کی اور اپنے کیریر کو پاکستان کے مفاد میں قربان کردیا۔ 

 انہوں نے اپنے کیریر میں 378 ون ڈے کھیلے، 11،109 رنز بنائے جن میں دس سنچریاں اور 83 نصف سنچریاں تھیں۔ یہ سکور انہوں نے 39.53 کی اوسط سے کیا۔ وہ دنیا میں ون ڈے میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے ٹنڈولکر کے بعد دوسرے کھلاڑي ہیں۔ 

انضمام الحق نے اپنا پہلا ایک روزہ میچ تو 1991 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا جس میں وہ صرف 20 رنز بنا سکے لیکن ان کے شاندار ون ڈے کیریئر کا آغاز 1992 کے ورلڈ کپ کے دوران نیوزی لینڈ کے خلاف میچ سے ہوا اور پاکستان کے ورلڈ کپ جیتنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

انضمام نے پچھلے ورلڈ کپ میں بھی کوئی خاص کاکردگی نہ دکھائی اور کئی دفعہ ریٹائر ہونے کا سوچا مگر بقول انضمام کے اس مشکل گھڑی میں ان کے والد کی نصیحت نے ان کا ساتھ دیا کہ ’بیٹا برے وقت کے بعد اچھا وقت بھی ضرور آتا ہے۔‘

انضمام کا اچھا وقت بھی آیا، وہ ٹیم کے کپتان بنے، اچھی فارم میں واپس آئے، پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیسٹ سنچریاں بنانے کا ریکارڈ قائم کیا، انڈیا میں ون ڈے سیریز جیتی اور ٹیسٹ سیریز برابر کی، اسی طرح ویسٹ انڈیز جا کر وہاں ون ڈے سیریز جیتی اور ٹیسٹ سیریز برابر کی۔

اب بھی انضمام کو اپنے والد کی نصیحت یار رکھنی ہوگی کہ اس برے وقت کے بعد بھی اچھا وقت دوبارہ آۓ گا۔ انضمام

انضمام کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ان کا کیریئر پاکستان کے سابق کپتانوں کے برعکس کافی شفاف ہے۔ نہ کبھی ان پر جوئے کا الزام لگا اور نہ ان پر گالی گلوچ کے الزام لگے۔ تاہم ان کو کسی نہ کسی طرح آئی سی سی کی طرف سے سزا ملتی رہی۔ وہ دنیائے کرکٹ کے ان کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جن پر سب سے زیادہ جرمانے اور میچ نہ کھیلنے کی پابندیاں لگی ہیں۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا تنازعہ انگلینڈ میں لگایا جانے والے بال ٹیمپرنگ کا الزام تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ٹیم کو گراؤنڈ سے باہر لے گئے اور پھر وقت پر گراؤنڈ پر نہ آنے کی وجہ سے میچ کا فیصلہ ایمپائیرز نے انگلینڈ کے حق میں دے دیا۔ انضمام پر اس کی وجہ سے بہت تنقید ہوئی لیکن انہوں نے اپنا کیس لڑا اور آخر کار بال ٹیمپرنگ کے الزام سے بری ہوئے۔ تاہم کھیل کو بدنام کرنے کے الزام میں انہیں قصوروار پاتے ہوئے چار ایک روزہ میچوں کی پابندی کی سزا دی گئی۔

انضمام کے دور میں ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ ٹیم کے کھلاڑی مزہب کی طرف مائل ہونے لگے اور انہوں نے نائٹ کلبوں کے چکر لگانے کی پرانی روایت بدل دی۔ انضمام وہ پہلے کپتان ہیں جنہوں نے اپنے ہر انٹرویو کا آغاز بسمہ اللہ سے کیا اور خدا کی حمد کے بعد کھیل پر تبصرہ کیا۔ ان کا یہ انداز بشمول کرکٹ بورڈ کے آخری چیرمین کے لوگوں کو پسند نہ آيا اور ان پر ہر طرف سے تنقید ہوئی مگر انہوں نے اپنے اس انداز پر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کی۔ ابھی ایک روز قبل اطہر عباس جیسے کالم نگار نے انہیں مولانا کہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جو کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔  ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام اگر ہر مقابلے کی تیاری کا حکم دیتا ہے تو ساتھ ہی انجام خدا پر چھوڑنے کو کہتا ہے۔ یہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسان کے بس میں کچھ نہیں اور خدا ہی ہر انسان کی تقدیر کا مالک ہے۔ انسان صرف کوشش کرسکتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر انضمام کی کوششوں کی وجہ سے یوسف یوہنا مسلمان ہوگیا تو اس نے اپنے کرکٹ کیریر سے بھی بڑا ریوارڈ خدا سے حاصل کرکے اپنی آخرت سنوار لی۔ امید ہے انضمام کا  پاکستانی کرکٹ ٹیم میں مذہبی رجحان کا لگایا ہوا پودا ضرور پھلے پھولے گا اور اس کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ کا عمل آسان ہوگا۔

انضمام چونکہ شروع سے ہی بھاری بھرکم تھے اور ان کا فالتو وزن وکٹوں کے درمیان  دوڑنے میں ہمیشہ رکاوٹ بنا رہا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے کیریر میں کئی دفعہ رن آؤٹ ہوئے بلکہ وہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ رن آؤٹ ہونے والے کھلاڑي قرار پائے۔

انضمام کتنی ٹیسٹ کرکٹ کھیلیں گے یہ ان کی فارم اور آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی ون ڈے ٹیم ایک عظیم کرکٹر سے محروم ہو گئی ہے۔