چند روز سے طلبہ نے کالجوں کی نج کاری کیخلاف بھرپور تحریک چلا رکھی ہے۔ جب پنجاب اسمبلی کے سامنے طلبہ اور اساتذہ کے احتجاج کو پولیس نے زبردستی روکا اور ان پر وحشیانہ تشدد کیا تو اس تحریک میں شدت پیدا ہو گئی۔ کل طلبہ نے پنجاب بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ اس دفعہ اساتذہ بھی اپنی نوکریاں بچانے کیلیے طلبہ تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔

ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کا کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ تعلیمی اداروں کی نج کاری کر کے تعلیم کو مزید مہنگا کر دے۔ ہم مانتے ہیں کہ اس وقت ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی قرضہ لے کر ادا کی جا رہی ہیں اور ترقیاتی فنڈز میں کٹوتی کر دی گئی ہے مگر تعلیم ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی مدد بغیر ملک میں خوشحالی نہیں آ سکتی۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ سرکاری اخراجات میں کٹوتی کر کے تعلیم پر مزید خرچ کرتی تا کہ ہر آدمی تک علم کی رسائی ممکن ہو سکتی۔

مگر چونکہ ہم مقروض ملک ہیں اور ہماری وزارت خزانہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے کنٹرول میں ہے اس لیے قرض دینے والے ہر وہ کوشش کریں گے جس سے ان کا اصل ذر محفوظ رہ سکے اور انہیں سود کی ادائیگی ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کی نج کاری کر دے تا کہ اس پر بوجھ کم ہو اور تعلیمی ادارے اپنے اخراجات خود پورے کریں۔ یہ ہماری حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ تعلیم کو مہنگا کرنے کی بجائے مزید سستا کرے۔ مگر کیا کیا جائے مقروض آدمی کا حق جب قرض دینے والوں کے پاس چلا جائے تو پھر یہی حال ہوتا ہے۔

حکومت دوسری تحریکوں کی طرح اب بھی یہ سمجھ رہی ہو گی کہ طلبہ بھی چند روز شور مچا کر چپ ہو جائیں گے۔ مگر حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ طلبہ تحریک وہ ہتھیار ہے جو بڑی بڑی حکومتوں کے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ اگر اس تحریک کو لیڈ کرنے والا میسر آ گیا تو پھر حکومت کیلیے اسے دبانا مشکل ہو جائے گا۔ نوجوان ساستدانوں کیلیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اس تحریک کا ساتھ دیں تا کہ ایک طرف ان کا کیریئر بھی بن جائے اور دوسری طرف عام آدمی کی تعلیم تک رسائی مزید مشکل نہ ہونے پائے۔