ہماری ناراضگیوں کی اکثر وجہ مفروضے ہوتے ہیں یعنی کسی کی بات آپ نے سنی اور خود ہی تصور کر لیا کہ اس کا مطلب یہ تھا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کا بات کرنے کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ سننے والے کو غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ اپنی صفائی میں چند مثالیں دیتے ہیں مگر بعد میں وہی آپ کے عزیز کی آپ سے ناراضگی کی وجہ بن جاتی ہیں۔ کبھی کبھار آپ کی قسمت، آپ کا بھولا پن۔ دوسروں پر حد سے زیادہ اعتماد آپ سے ایسی ایسی باتیں منہ سے اگلوا دیتے ہیں کہ آپ کی بنی بنائی بات بگڑ جاتی ہے۔

اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ اپنی صفائی میں جو کچھ کہنا ہے سوچ سمجھ کر کہیے کیونکہ آپ کے منہ سے نکلا ہوا لفظ آپ کو رہا بھی کرا سکتا ہے اور  پھانسی کے تخت تک بھی پہنچا سکتا ہے۔ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ اگر سب کو خوش رکھنا ہے تو پھر آپ کو ہی قربانی دینا پڑے گی۔ آپ سوچیں کہ سب آپ جیسے ہی ہوں یہ ناممکن ہے۔ جب تک آپ سمجھوتے کے عادی نہیں ہو جائیں گے آپ رشتوں کو امر نہیں کر پائیں گے۔

افسوس تبھی ہوتا ہے جب آپ کی بات کا غلط مطلب لے کر آپ کے عزیز آپ سے ناراض ہو جاتے ہیں اور آپ کو صفائی کا موقع بھی نہیں دیتے۔ ان حالات میں آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے تجربے سے سبق سیکھے، ناراض عزیز کو منانے کی کوشش کرے اور باقی بچ جانے والے عزیزوں کی فکر کرے۔ یعنی ایسی غلطی دوبارہ نہ دہرائے اور ہر لفظ منہ سے نکالنے سے پہلے سو بار سوچے۔

واقعی آدمی جوں جوں بڑا ہوتا جاتا ہے اس کے مسائل بڑھتے جاتے ہیں اور اس کا دماغ چند لمحوں کی تفریح کیلیے بھی ترسنے لگتا ہے۔ کبھی کبھار ان چاہے مسائل ایسا گھیرا تنگ کرتے ہیں کہ آدمی بل بلا اٹھتا ہے اور توبہ توبہ کرنے لگتا ہے۔