اب دنيا اتني جديد ہوچکي ہے کہ آپ پرانے سے پرانے قتل کا معمہ بھي حل کرسکتے ہيں۔ ڈي اين اے ٹيسٹ نے ثبوت کا ايسا معيار قائم کر ديا ہے جس سے بچنا اب تقريباً ناممکن ہوچکا ہے۔ خبروں کو چھپانا اب کسي حکومت کے بس کي بات نہيں رہي۔ ادھر کہيں واقعہ ہوا نہيں اور ادھر دنيا کو پتہ چلا نہيں۔

 اتني ترقي کے باوجود ہمارے معاشرے ميں کچھ برائياں ايسي ہيں جن کو حکومت کيلئے کنڑول کرنا بائيں ہاتھ کا کھيل ہے۔ ہم ان ميں چند عام برائيوں کو گن کر ان کي اصلاح کے آسان طريقوں پر غور کرتے ہيں اور يہ بھي اندازہ لگاتے ہيں کہ حکومت اب تک ان برائيوں کو کيوں نظر انداز کررہي ہے۔

ہمارے معاشرے ميں اس وقت رشوت خوري معمول کا کام بن چکا ہےاب لوگ اسے برا نہيں سمجھتے۔ حالانکہ رشوت لينے اور دينے سے اسلام ميں سختي سے منع کيا گيا ہے اور آج کي جديد سوسائٹي نے بھي اسے بہت بڑي برائي جانتے ہوئے اس کي کڑي سزا رکھي ہے۔ نبي پاک صلعم کي مشہور حديث ہے “رشوت لينے اور دينے والا دونوں جہنمي ہيں” ۔ اس حديث کے سننے کے بعد وہي اس عمل سے گريز کرے گا جس کا جنت اور جہنم پر يقين نہيں ہوگا۔  يورپ ميں رشوت نہ ہونے کے برابر ہے اور يہي وجہ ہے معاشرہ کئي برائيوں سے بچا ہوا ہے۔

 پہلے رشوت چھپ چھپا کر اور دلالوں کے ذريعے دي جاتي تھي اب رشوت سرعام دي جاتي ہے۔ حکومت اگر چاہے تو راشيوں کو بڑي آساني ثبوت کيساتھ پکڑ سکتي ہے اور جب ثبوت بہت ہي واضح ہوں تو جج بھي دنوں ميں راشي کو سزا سنا سکتا ہے۔ مگر کيا وجہ ہے کہ راشي نہ تو پکڑے جارہے ہيں اور نہ ہي ميڈيا ان کي طرف متوجہ ہورہا ہے۔ يہ بيماري عام آدمي سے ليکر حکومتي اہلکاروں تک پھيل چکي ہے۔ عام آدمي نے بچلي کا ميٹر لگوانا ہو تو رشوت ديتا ہے۔  اگر حکومتي اہلکار نے ملکي مفاد کے خلاف کسي پاور سپلائي کمپني کو پاکستان ميں پاور پلانٹ لگانے کا آرڈر دينا ہو تو وہ جو رشوت ليتا ہے اسے کميشن کہا جاتا ہے۔ ہمارے خيال ميں اگر حکومت اينٹي کرپشن محکمے کو چند نيک اور ايماندار افسر مہيا کردے تو وہ آج کے جديد ميڈيا کو موجودگي ميں راشيوں کو رنگے ہاتھوں آساني سے پکڑ سکتے ہيں۔ اب تو بڑي بڑي مجھليوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنا بھي آسان ہوچکا ہے۔ مگر حکومت ايسا نہيں کررہي اور اس کي دو وجوہات ہيں۔ ايک تو بين الاقوامي دباؤ اور دوسرے خود حکومت ميں اہلکاروں کا کرپٹ ہونا ۔ ہمارے آقا نہيں چاہتے کہ مسلمان برائيوں سے پاک معاشرہ قائم کريں اور وہ اسے روکنے کيليے ان کے زر خريد حاکموں کو ڈرا دھمکا کر اور لالچ دے کر اپنے ايجنڈے پر عمل کرا رہے ہيں۔۔

اسي طرح ہمارے معاشرے ميں ملاوٹ کا روبار زوروں پر ہے۔ کھانے پينے کي اشيا سے لے کر دواؤں تک، صنعتي اشيا سے ليکر روزمرہ استعمال کي چيزوں تک ميں ملاوٹ کوئي ڈھکي چھپي بات نہيں رہي۔ آپ بازار چلے جائيں آپ کو پسي ہوئي مرچيں ملاوٹ شدہ مليں گے، ہلدي ميں ملاوٹ ہوگي، اسي طرح ميڈيکل سٹور جعلي دواؤں سے بھرے پڑے مليں گے۔ بہت پہلے يعني اسي کي دہائي کي بات ہے شايد سليم نامي آدمي نے سرکاري ٹي وي ملاوٹ کے بارے ميں ايک پروگرام شروع کيا تھا۔ اس نے ملاوٹ کرنے والوں کے کارخانوں پر نہ صرف چھاپے مارے بلکہ ان کي ويڈيوز بنا کر ٹي وي پر بھي دکھا ديں۔ ان ويڈيوز ميں ملاوٹ کا اقرار کرنے کے باوجود کسي کوبھي سزا نہ دي جاسکي بلکہ حکومت نے اس پروگرام کو ہي بند کرديا۔ اب تو حکومت کيليے ملاوٹ کرنے والوں کو پکڑنا اور آسان ہوچکا ہے کيونکہ ايک تو ملاوٹ عام ہے اور دوسرے جديد ٹيکنالوجي کے ذريعے ملاوٹ کرنے والے کو سزا دلوانا بھي آسان ہے۔ مگر حکومتي افسر اس مکروہ اور جان ليوا کاروبار پر بھي ہاتھ نہيں ڈال رہے کيونکہ وہ خود ان کاموں ميں ملوث ہيں۔

اس کے علاوہ بہت سے ايسے جرائم ہيں جن کو کنٹرول کرنا حکومت کيليے بہت آسان ہے مگر چونکہ حکومتي اہلکار ان جرائم ميں ملوث ہيں اور دوسرے اپنے بين الاقوامي آقاؤں کے آگے بکے ہوئے ہيں اسليے وہ ان جرائم سے پروہ پوشي کررہے ہيں۔ حيراني اس بات پر ہے نہ ميڈيا ان جرائم کي طرف توجہ دے رہا ہے اور نہ ہي عوام کوشش کررہے ہيں۔

ہماري نظر ميں ان جرائم کے خاتمے کا حل لوگوں کو تعليم يافتہ بنانے ميں ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کر پہچاننا شروع کرديں اور پھر ان کے حصول کيليے جدوجہد بھي کريں۔ چونکہ حکومت بھي تعليم پر زيادہ توجہ نہيں دے رہي اسليے جرائم سے پاک معاشرے کا قيام صرف اور صرف انقلاب فرانس جيسے اقدام سے ہي ممکن ہے۔