کل رات جیو پر حامد میر کے پروگرام میں وفاقی وزیر مزہبی امور اعجاز الحق، مسلم نون کے احسن اقبال، پی پی پی کے رضوی صاحب اور جامعہ حفصہ کے دونوں بھائی عبدالرشید غازی اور عبدالعزیز کے درمیان مذاکرہ دیکھا۔ جامعہ حفصہ کے انچارج دونوں بھائیوں کے سامنے اعجاز الحق صاحب کا موقف بہت کمزور سا لگ رہا تھا۔

اعجاز الحق صاحب کے بقول اسلام آباد میںصرف ایک مسجد حمزہ گرائی گئ ہے جس کی تعمیر شروع ہے مگر لال مسجد کے صاحبان کا کہنا تھا کہ وہ اعجاز الحق کو اپنے ساتھ لے جاکر کئی مساجد دکھا سکتے ہیں جن کو گرا دیا گیا اور انہیں دوبارہ تعمیر نہیں کیا جارہا۔ ویسے میڈیا بھی اب تک تقریباً سات مساجد گرائے جانے کی تصدیق کرچکا ہے۔ پتہ نہیں اعجاز الحق صاحب کو وہ مساجد کیوں نظر نہیں آرہیں۔

حامد میر صاحب نے اعجازالحق صاحب سے پوچھا کہ تین سال قبل جب عبدالرشيد غازی صاحب کی گاڑی سے اسلحہ برآمد ہوا تو پھر انہیں کیوں چھوڑ دیا گیا۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے علما کی گارنٹي پر انہیں چھوڑا کہ وہ دوبارہ نامناسب سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ غازی صاحب کا کہنا یہ تھا کہ ان کی گاڑی کسی نے ادھار مانگی تھی۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ گاڑي کیساتھ گرفتار ہونے والے اصحاب دہشت گردی کی عدالتوں سے بری ہوچکے ہیں مگر غازی صاحب کی گاڑی ابھی تک واپس نہیں کی گئ اور گاڑی پر مقدمہ بھی ایک سال بعد اسلیے درج کیا گیا تاکہ اسے واپس کیا جاسکے۔ حامد میر صاحب نے جب کہا کہ رہا ہونے والا ایک شخص دوبارہ گرفتار ہوچکا ہے تو غازی صاحب نے کہا کہ گرفتار نہیں ہوا بلکہ اٹھا لیا گیا ہے اور اس کا ابھی تک کسی کوکوئی پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے۔

مسلم لیگ نون کے احسن اقبال صاحب جو جماعت اسلامی سے بےوفائی کرکے نواز شریف سے جاملے تھے کا اسی بات پر زور رہا کہ جب حکومت ایک آدمی کے ڈنڈے کے زور پر چلائی جاسکتی ہے تو پھر دوسرے لوگ بھی طاقت ہی کو ہر مسئلے کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کا یہ پوائنٹ ٹھیک تھا کہ صدر صاحب اگر ایک فنکشن میں گیارہ سو طالبات کی مرضی کو پوری قوم پر لاگو کرنے کے مخالف ہیں تو پھر وہ اپنی مرضی قوم پر کیوں لاگو کیے بیٹھے ہیں۔ وہ جمہوریت کیوں بحال نہیں کرتے۔

پی پی پی کے رضوی صاحب نے تو ایک ہی رٹ لگائے رکھی کہ یہ حکومت کی ملی بھگت ہے تاکہ جامعہ حفصہ کا قصہ چھیڑ کر عوام کی توجہ چیف جسٹس کے کیس سے ہٹائی جاسکے۔ ان کا یہ بھی استدلال تھا کہ حکومت جامعہ حفصہ کے مسئلے کو لٹکا کر اپنے آقاؤں کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ اگر جنرل صدر مشرف کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو پھر انتہاپسند حکومت پر قبضہ کرلیں گے۔ اس نقطے میں بھی وزن لگتا ہے۔

اس مذاکرے کا سب سے اہم نقطہ وہ تھا جب جامفعہ حفصہ کے انچارج عزیز صاحب سے یہ پوچھا گیا کہ جامعہ حفصہ والوں نے شریعت کے نفاذ اور لائبریری پر قبضہ بحال رکھ کر یورپ کو پھر سے یہ سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ پاکستان کے مدرسے انتہاپسندی پھیلا رہے ہیں۔ عزیزصاحب نے بڑی خوبصورت بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یورپ کو کیوں اتنی اہمیت دے رہے ہیں اور ہم اللہ اور اس کے رسول کی شریعت کو کیوں پس پشت ڈال رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم یورپ کی شکایتوں پر دھیان دینے کی بجائے خدا اور اس کے رسول کی احکام پر دھیان دیں۔

ہمیں تو اس مزاکرے میں حکومت کا موقف بہت کمزور سا لگا یا شاید وفاقی وزیر پوری طرح تیار ہوکر نہیں آۓ تھے اور وہ کوئی ٹھوس موقف نہ پیش کرسکے۔

بہرحال تمام لوگ اس بات پر متفق تھے کہ اگر جامعہ حفصہ والے لائبریری خالی نہ کریں تو ان پر طاقت استعمال کرنے کی بجائے افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنا چاہیے۔

ہماری بھی دونوں پارٹیوں سے یہی گزارش ہے کہ وہ ہٹ دھرمی چھوڑیں اور مذاکرات سے مسئلے حل کریں۔ لال مسجد والوں کو چاہیے کہ وہ لائبریری کا قبضہ ختم کردیں اور اپنے مطالبات منوانے کیلیے جمہوری طریقہ اختیار کریں۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ جامعہ حفصہ کے جائز مطالبات مان کر اس قصے کو ختم کریں۔

اس مسئلے کو جاننے کیلیے ہماری پوسٹ جامعہ حفصہ کی طالبات اور انظامیہ کی ٹکر پڑھئے جو ہمارے بلاگ پر اب تک سب سےزیادہ پڑھی گئ ہے۔