جب ہم گاؤں کو چھوڑ کر ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے لگے تو بہت سارے نئے لوگوں سے واسطہ پڑا۔ آج ہمیں ان میں سے دو بھائی یاد آرہے ہیں۔

دیکھنے کو تو ان کی کہانی عام سی ہے جو ہر غریب پاکستانی کی آپ بیتی لگتی ہے مگر اس میں ایک بہت بڑا سبق پوشیدہ ہے۔ ان دوبھائیوں کی کہانی بیان کرنے کا ہمارا مقصد صرف اس سبق سے اگاہ کرنا ہے جسے سیکھ کر ہم اپنی کمزوریوں اور خامیوں پر قابو پاکر ترقی کرسکتے ہیں۔

اس وقت وہ دونوں بھائی شریف اور لطیف ہائی سکول کے ابتدائی سالوں میں تھے۔ ان کا باپ چند سال قبل فوت ہوچکا تھا۔ بڑا سوتیلا بھائی شادی کرکے کراچی جابسا تھا۔ اب ان دونوں بھائیوں کی پرورش کا بوجھ ان کی ماں پر تھا۔ بیوہ نے دوسرے محلے میں ایک امیر کے گھر کام کاج شروع کردیا اور اس طرح ان کی گزر بسر ہونے لگی۔ ان کا گھر چھ مرلے کے پلاٹ پر دوکمروں پر مشتمل تھا۔ وہیں انہوں نے کبوتر بھی پال رکھے تھے۔ ان کی ماں انہیں سکول بھیج کر کام پر چلی جاتی اور ان کیلیے دوپہر کی روٹی پکا کر رکھ جاتی۔

ایک روز ہم نے دیکھا کہ پچھلے پہر لطیف شریف کے پیچھے اسے مارنے کیلیے دوڑ رہا ہے اور شریف اس کے ہاتھ نہیں آرہا۔ ہم نے معاملہ پوچھا تو پتہ چلا کہ شریف نے لطیف کے حصے کی بھی روٹی کھالی ہے اور اب وہ بھوک کا ستایا ہوا اسے مارنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ایک بھائی دوسرے کے حصے کا کھانا اپنے کبوتروں کو کھلا دیتا۔

ماں کے سارا دن کام پر رہنے کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا اسلیے وہ پڑھائی پر کوئی خاص توجہ نہ دے پائے اور جلد ہی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر تک تو فضول آوارہ گردی کرتے رہے لیکن پھر دونوں نے بجلی کے پنکھوں کا کام سیکھنا شروع کردیا۔ ابھی انہوں نے پوری طرح کمائی بھی شروع نہیں کی تھی کہ ان کی ماں نے ان کی آوارہ گردی سے تنگ آکر ان کی شادیاں کردیں۔ ابھی شادیاں ہوئے دو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ ساس بہو کے جھگڑے نے ان کی ماں کو بیمار کردیا اور وہ جلد ہی اگلے جہان کوچ کرگئی۔

دونوں بھائیوں نے ماں کے مکان کو دوحصوں میں تقسیم کرلیا اور محنت مزدوری سے اپنا پیٹ پالنے لگے۔ ان غریبوں کی عیاشی کا ایک ہی ذریعہ تھا جس نے رنگ دکھایا اور سات سال میں ان کے ہاں سات سات بچے بھی پیدا ہوگئے۔ ہم جب بھی واپس اپنے پرانے محلے جاتے تو نو افراد پر مشتمل خاندان کو تین مرلے کے ایک کمرے والے گھر میں رہتا دیکھ کر حیران ہوتے۔ ابھی بچے چھوٹے چھوٹے ہی تھے کہ ان کی بچے بنانے والی مشینیں ناکارہ ہوگئیں اور وہ اس جہان سے کوچ کر گئیں۔

اب حال یہ ہےکہ ان کے بچے انہی کیساتھ لڑتے بھڑتے دن گزار دیتے ہیں۔ غربت نے انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کردیا ہے۔ اس دفعہ جب ہمارا ان کی گلی سے گزر ہوا تو ہم لطیف کو پہچان بھی نہ پائے۔ اس کے سارے دانت خراب ہوچکے تھے، جسم پہلے سے بھی نحیف ہوچکا تھا اور وہ اپنے گھر کے سامنے گلی میں کھڑا ہر آنے جانے والے کو دیکھ رہا تھا۔ ہمیں اس پر بہت ترس آیا، جتنی ہوسکی اس کی امداد کی اور اس کی غربت پر کڑھتے رہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بہت کچھ کرسکتے تھے مگر ان کی سستی اور کاہلی نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ کبوتر بازی میں انہوں نے اپنی جوانیاں ضائع کردیں اور جب سات سات بچے ہوگئے تو پھر دیر ہوچکی تھی۔ اسی محلے میں انہی کے ہمجولی اپنی محنت سے ان سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ کوئی یورپ میں بیٹھا ہے اور کسی نے وہیں کاروبار کردکھا ہے۔

بچپن میں ان کو بدنصیبی نے مارا اور جوانی میں ان کی سستی نے۔ جب بھی وہ اپنی قسمت کا گلہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یتیم ہونے اور غربت کی وجہ سے ماں کی توجہ نہ ملنے کی وجہ سے آج ان کا یہ حال ہے، تو ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ چلو تمہاری ماں غربت کی وجہ سے تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکی مگر تم ہوش سنبھالنے کے بعد بہت کچھ کرسکتے تھے لیکن تم نے کچھ نہیں کیا۔ اب ہرکوئی تو سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا نہیں ہوتا۔

 غریب اگر چاہے تو بناں سہارے کے بھی اپنی زندگی کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ اسکیلیے مستقل مزاجی اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ غریب کی دولت اس کا جسم اور دماغ ہی ہوتا ہے اور وہ اپنے جسم کی طاقت اور دماغ کي صلاحيت اگر ٹھیک طرح سے استعمال کرے تو ہر رکاوٹ خود بخود دور ہوتی چلی جاتی ہے۔