ہماري پچھلي تين چار پوسٹوں ميں ايک ہي بحث چلي ہوئي ہے يعني کراچي کے حالات اور ان کے پيچھے چھپے ہوئے حقائق۔ اس بحث ميں ہم لوگ دوگروپوں ميں تقسيم ہوچکے ہيں۔ ايک پرو ايم کيو ايم اور ايک ايم کيوايم مخالف يا پرو پاکستاني۔ اس کامطلب يہ نہيں کہ خدانخواستہ ايم کيو ايم والے پاکستاني نہيں ہيں۔ ہمارا دوسرے گروپ کو پروپاکستاني کہنے کا صرف يہ مطلب تھا کہ ان کي نيت ميں بھي خلوص ہے اور وہ ايم کيو ايم کي مخالفت بھي اگر کرتے ہيں تو پاکستان کي محبت ميں۔ ہوسکتا ہے ہم اس نقطے کو واضح طور پر بيان نہ کرپائے ہوں اور اميد کرتے ہيں ايم کيو ايم گروپ اس نقطے کو مثبت انداز ميں لے گا۔ ايم کيو ايم والے گروپ کو ايک غلط فہمي يہ ہے کہ وہ مخالف گروپ کے لوگوں کو متعصب اور پنجابي سمجھتے ہيں۔ اگر آپ ايم کيو ايم مخالف گروپ کي تحريريں پڑہيں تو ان ميں کوئي تعصب نظر نہيں آتا۔ ان کا صرف اتنا قصور ہے کہ ان کے خيالات ايم کيو ايم سے نہيں ملتے۔يہ کوئي اتنا بڑا جرم نہيں ہے کہ انہيں پنجاب کے کھاتے ميں ڈال کر ان پر خوب لعن طعن کي جائے۔
اچھے اور سلجھے ہوئے ذہنوں کي يہي عادت ہوتي ہے کہ وہ تحمل اور بردباري سے بات سنتے ہيں اور پھر مدلل جواب ديتے ہيں۔ اس بحث ميں کبھي کبھي مخالف فريق کي باتيں دل دکھانے والي بھي ہوتي ہيں مگر ان باتوں کا جواب بھي اگر حوصلے سے ديا جائے توپھر بحث کے مثبت نتائج نکلتے ہيں۔ اس طرح بحث کرنےوالوں کيساتھ ساتھ پڑھنے والوں کي بھي تربيت ہوتي ہے۔ اگر بحث کرنے والے حوصلہ ہار جائيں تو پھر وہي ہوتا ہے جو چند ماہ قبل شعيب کے “خدا سے ملو” والي پوسٹ کے چھپنے پر بحث کے بعد ہوا تھا۔ اس بحث نے گالي گلوچ کي شکل اختيار کرلي اور اردو سيارہ والوں کو مجبوراً کئي بلاگرز کو بلاک کرنا پڑا۔
آئيں ہم اس واقعے سے سبق سيکھيں اور بحث کو ايک اچھے اور منجھے ہوۓ تجربہ کار انسان کي طرح آگے بڑھائيں۔ اميد ہے تمام شرکا صبر کا دامن ہاتھ سے نہيں چھوڑيں گے اور اس بحث کو اپنے مختصر دلائل کيساتھ اتنا جاندار بنا ديں گے کہ مستقبل کے قاري کو ايم کيو ايم کي تاريخ جاننے ميں مدد ملے گي۔
ہماري پہلي دو چار تحريريں بھي ايم کيو ايم پر تنقيد پر مشتمل تھيں اور يقين مانيں سب سے زيادہ تبصرے انہي تحريروں پر لکھے گئے۔ ان تبصروں سے ہم نے يہي تاثر قائم کيا کہ ہم لوگ مخالفت برائے مخالفت ميں الجھ کر اصل مسئلے کو پس پشت ڈال ديتےہيں۔ اگر ہم مخالفت کرنے والے کي نيت پر شک کرنے لگيں تو اس کا تبصرہ جہالت پر مبني لگنے لگتا ہے۔ ليکن اگر ہم اپنے مخالف کو بھي ايک اچھا اور مخلص انسان مان ليں تو پھر اس کي باتوں سے ہم سيکھتے بھي ہيں اور اس کيساتھ بحث کا لطف بھي اٹھاتے ہيں۔
ايم کيو ايم جس طرح بھي بني اس سے ہٹ کر اگر اس کي پچھلے دس پندرہ سال کي کاکردگي کا جائزہ ليا جاۓ تو يہ جماعت بھي دوسري سياسي جماعتوں کي طرح خود غرضوں کا ايک ٹولہ نظر آتي ہے۔ نواز شريف اور بينظير کے ادوار ميں اسے حکومت ميں شامل ہونے کا موقع ملا مگر اس کي کارکردگي دوسري جماعتوں کي طرح صفر ہي رہي۔ اب ايم کيو ايم سات سال سے فوجي حکومت کو سپورٹ کرنے کيساتھ ساتھ سندھ اور کراچي پر حکومت بھي کررہي ہےمگر کراچي کے حالات جوں کے توں ہيں۔
ہميں ايم کيو ايم کے سربراہ الطاف حسين اور بينظر ،نواز شريف ميں کئ مماثلت نظر آتي ہيں۔ الطاف صاحب بھي بينظير ک طرح خود ساختہ جلاوطني اختيار کئے ہوئے ہيں۔ انہوں نے بھي نواز شريف کي طرح جيل جانے کي بجائے باہر رہنا پسند کيا۔ ايم کيو ايم کے الطاف بھائي اسي طرح ايک فوجي جنرل کے دور ميںليڈر بنے جس طرح بھٹو جنرل ايوب کو ڈيڈی کہ کر سياست ميں آئے اور نواز شريف بھي جنرل ضيا کے زير سايہ سياست ميں چمکے۔ الطاف صاحب بھي ہمارے وزير اعظم اور ان کي کابينہ کے بيشتر ارکان کي طرح دوہري شہريت رکھتے ہيں۔
ايم کيو ايم کے الطاف صاحب کے کئي ايسے منفرد ريکارڈ ہيں جنہيں توڑنا مستقبل ميں شايد ناممکن نہيں تو مشکل ضرور ہوگا۔ الطاف صاحب نے ٹيليفونک خطاب کو رواج ديا۔ الطاف صاحب نے لساني بنيادوں پر ايک تحريک کي بنياد رکھي جس کو بعد ميں نام بدل کر قومي تحريک بنانے کي ناکام کوشش کي گئ۔ الطاف صاحب کي تحريک بيس سال گزرنے کے بعد بھي حيدر آباد اور کراچي سے آگے نہيں بڑھ سکي۔جماعت اسلامي کي طرح ايم کيو ايم ايک منظم جماعت تھي اور اب بھي ہے۔ اس کے ورکر الطاف صاحب پر اسي طرح جان نثار کرنے کو تيار رہتے ہيں جس طرح ايک مسلمان اپنے نبي صلعم کي خاطر ہر وقت جان ہتھيلي پر تيار رکھتا ہے۔ يہي خوبي ايم کيو ايم کو دوسري سياسي جماعتوں کے مقابلے ميں برتري دلاتي ہے اور اسي وجہ سے ايم کيو ايم لمبے عرصے سے کراچي سے قومي اسمبلي کي نشستيں جيتتي آرہي ہے۔ الطاف صاحب ايسے لیڈر ہيں جو پاکستان کي ايک اہم جماعت کے سربراہ ہوتے ہوئے دوسرے ملک کے شہري بنے۔ الطاف حسين صاحب نے اپني تقريرکے انداز کو ذاکرانہ سٹائل ميں بدل کر ايک نئ طرح ڈالي ہے۔ وہ بيان بھي ديں تو لگتا ہے نوحہ پڑھ رہے ہيں۔ ايم کيو ايم کا ايک اور منفرد انداز اس کا ميڈيا کا صحيح استعمال ہے۔ کسي کي اگر برڈ فلو سے مرغي بھي مرجائے تو ايم کيو ايم کے قائد کا بيان آجاتا ہے اور اسے ميڈيا بڑي خبر کے طور پر کوريج ديتا ہے۔
ايم کيو ايم نے آزاد کشمير کے پچھلے انتخابات ميں ايک آدھ سيٹ حکومت کي مدد سے جيت کر کوشش کي کہ وہ ايک قومي جماعت بن سکے مگر اس کي راہ ميں سب سے زيادہ رکاوٹيں اس کي حليف جماعت مسلم ليگ ق کے چوہدريوں نے پيدا کيں۔ اس کے پنجاب ميں قائم کردہ دفاتر کو بزرو طاقت بند کرديا اور اسے اپنے پاؤں جمانے نہيں ديے۔ يہ الطاف صاحب کي بردباري ہے کہ اتني بڑي مخالفت کے باوجود انہوں نے مسلم ليگ ق کي حکومت سے عليحدگي اختيار نہيں کي۔ ہوسکتا ہے جنرل مشرف صاحب کي آشيرباد ہردفعہ الطاف صاحب کو حکومت مخالف کوئي بڑا قدم اٹھانے سے روکتي ہو۔ جنرل صاحب چونکہ خود اردو سپيکنگ ہيں اسليے ہوسکتا ہے ان کي ہمدردياں بھي مسلم ليگ ق کے مقابلے میں ايم کيو ايم کيساتھ زيادہ ہوں۔
ہميں ايم کيو ايم سے يہ اختلاف ہے کہ اس نے بھي ايک فوجي حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے۔ يہ وہ فوجي حکومت ہے جو جعلي جمہوريت کي آڑ ميں ڈنڈے کے زور پر پاکستان پر حکومت کررہي ہے۔ اس فوجي حکومت نے بگٹی کو قتل کرکے، باجوڑ ميں طلبا کر شہيد کرکے، چيف جسٹس کو معطل کرکے ايسے غير جمہوري کام کئے ہيں جن کي مخالفت الطاف حسين نےکي تو ہے مگر حکومت سے علیحدگي اختيار نہيں کي۔ کل کو اگر تاريخ جنرل مشرف کے سياہ دور کے سياہ کارناموں کا ذکر کرے گي تو ايم کيو ايم کو بھي اس کا مجرم قرار دے گي۔
ہم نے اس بحث کو جاندار بنانے کيليے اچھا خاص مواد مہيا کرديا ہے اور اميد يہي ہے کہ يہ بحث مثبت انداز ميں آگے بڑھے گي۔ خدارا ہميں ايم کيو ايم کي مخالفت پر پنجابي کا طعنہ نہ ديجئے گا۔ ہم خدا کو گواہ جان کر کہتے ہيں کہ ہميں پاکستان کا روشن مستبقل عزيز ہے اور يہي ہمارا مشن ہے۔ اس سے قطع نظر کراچي ميں غنڈہ گردي کا اصل ذمہ دار کون ہے آئيں ايم کيو ايم کي سياسي تاريخ کا جائزہ ليں اور يہ ديکھيں کہ ايم کيو ايم جن مقاصد کيلئے بنائي گئ تھي وہ پورے ہوئے کہ نہيں۔
94 users commented in " ايم کيو ايم، اردو سپيکنگ يا مہاجر تحريک "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسب سے پہلے تو میں معذرت کرنا چاہتا ہوں کے شاید میں بحث کے اصولوں کو تھوڑا بہت پامال کر گیا تھا۔ دوسری بات میں آپ کے بلاگ سے ہی لے کر چل رہا ہوں کے ایم کیو ایم (الطاف) کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اپنے موقف کو یہ ہمشہ حق سمجھتے ہیں اور مخالفین کی زبانیں بند کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں اور صحافی انکے سرزنش کرنے کے طریقوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔۔ انکے نعرے سنیے۔۔ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے ۔۔ یا ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے۔۔ اب آپ لوگ بتائیں قائد کے غدار سے کیا مراد ہے یعنی جو قائد کی بات سے اختلاف کرے۔۔ دہری شہریت جہاں بہت سے سیاست دانوں کے پاس ہے وہ اسکا چرچہ نہیں کرتے مگر الطاف حسین نے لال پاسپورٹ لہرا کر فرمایا “یہ حق پرستوں کی فتحہے“ سبحان اللہ یعنی آپ لوٹیں برطانیہ کے مزے ہر کراچی والے جشن فتح منائیں۔۔
جس آرمی کے یہ خلاف رہے ۔۔ جس کے آپریشن کی وجہ سے یہ لندن گئے ۔۔ آج اسکے ساتھ بیٹھے ہیں۔۔ آرمی سے انکی بنتی نہیں، ق لیگ کے یہ مخالف۔۔ تو حکومت میںکر کیا رہے ہیں؟ مقصد کیا ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے میں آگے بڑھنے کی صرف ایک سیڑھی ہے وہ ہے بدمعاشی۔۔ جو جتنا بڑا بدمعاش وہ اتنا بڑا عہدیدار۔۔ اور یونٹ کے نام پر جس قسم کی دہشت گردی کی جاتی ہے میں اس سے اچھی طرح واقف ہوں۔۔
ایک ذاتی بات جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کے میں کراچی سے دور بیٹھا ہوں انکی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کے میں پیدا کراچی میں ہوا اور کراچی کی گلیوں میں ہی زندگی کے تیس سال گزارے اور ایک عرصے تک “جیے مہاجر“ کے نعرے بھی لگائے ۔۔ اور مجھے اس کا افسوس ہے اور میںتمام پاکستانیوں سے اسکی معافی مانگتا ہوں کے ایک دہشت گرد تنظیم کے لیے میں نے اپنے دل میں ہمدردی رکھی
سلام
ایم کیو ایم کا اگر طریقہ کار دیکھا جائے تو یہ بات کہنا غلط ہو گی کہ اس کے کارکن اس کے قائد پر جانثار ہیں۔
اگر آپ پارٹی میں شامل ہونے کے بعد نکلنا چاہیں تو نکل نہیں سکتے کیونکہ نکلنے کا راستہ سوائے موت کے کچھ نہیں۔
اب سوال ہے کہ شامل کیوں ہوتے ہیں؟ غربت۔ اور جوانی کا نشہ یہ لوگ ٹین ایج کے دوران یا اس کے ارد گرد اس جماعت کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد سب سمجھدار ہیں،
لاہور میں الطاف حسین کی تصاویر والے گھی کے ڈبے اور آٹے کے تھیلے میرے سبھی دوست دیکھ چکے ہیں۔ مجھے ابھی تک سمجھ نہیں لگ سکی کہ اس قدر رقم کیسے اور کہاں سے آئی؟
پارٹی چندے یا بھتہ پر چلتی ہے۔ اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے کہ کسن نے کتنا چندہ دیا۔ اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زبردستی ہر ماہ وصول کیا جاتا ہے لہذا اس کو بھتہ لکھ رہا ہوں ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی پارٹی کا نام استعمال کر کے بھتہ لے رہا ہو اور کسی میں ہمت نہ ہون کہ پاڑتی کو آگاہ کر سکے۔
الطاف حسین نے ابھی جیو پر حملے کے خلاف آج کامران خان کے ساتھ نامی پروگرام میں جس طرح احتجاج کیا اس سے مجھے جاہل مولوی کے خطبات یاد آ گئے۔ میرے خیال سے اب الطاف حسین بوڑھے ہو چکے ہیں ان کو پارٹی ڈاکڑت صاحب کے حوالے کر دینی چاہئے۔
خوب آپ منفی باتیں کریں اور درخواست کریں کہ کوئی انہیں منفی نہ سمجھے کیا خوب مزاق ہے،
بغیر کسی ثبوت کے کسی کو دہشت گرد اور غنڈہ بنا کر پیش کرنا شائد آپ کی زبان میں محبت اور خلوص ہوتا ہوگا،
پنجابی تو آپ لوگ ہیں اب متعصب ہیں یا نہیں یہ آپ اپنے دل سے پوچھ لیں،
ایم کیو ایم کی مخالفت کا پاکستان کی محبت سے کیا تعلق ہے؟ یہ بھی آپ جیسے افلا طون ہی بتا سکتے ہیں ایم کیو ایم کو دہشت گرد کہنا یعنی اردو بولنے والوں کے ایک بڑے حصے کو دہشت گرد کہنا،
اگر حقیقت بتانے کو آپ لعن طعن کہتے ہیں تو آپ کی مرضی مگر آپ کے جھٹلانے سے حقائق بدل نہیں جائیں گے،اور جو کچھ آپ لوگ کراچی کے رہنے والوں کو کہتے رہتے ہیں وہ لعن طعن نہیں تعریفیں ہیں آپ کی زبان میں؟
آپکا مسئلہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے اپنا مائنڈ سیٹ کیا ہوا ہے اب کوئی کتنے بھی دلائل دے یا حقائق بیان کرے آپ لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کی وہی ایک میں نۃ مانوں ہے اور رہے گی،
آپ ایم کیو ایم کے نواز شریف اور بے نظیر دور میں شامل رہنے کی بات کرتے ہیں کہ ان کی کارکردگی اس دور میں صفر رہی آپ کو کتنی بار یہ بتانا پڑے گا کہ ان دونوں ادوار میں اردو بولنے والوں کا آپریشن کلین اپ کیا جاتا رہا اور یہ بھی دنیا میں واحد مثال ہے کے اپنے ساتھ شامل جماعت حکومتوں نے اس طرح قتل عام مچایا ہو کہ انٹرنیشنل میڈیا بھی چیخ پڑا ہو،
الطاف حسین ملک سے باہر جب گیا جب ایجینسیوں نے اس کے سگے بھائی اور بھتیجے کو قتل کیااور ایم کیو ایم کے لوگوں نے اس کی جان بچانے کے لیئے اسے باہر بھگا دیا،الطاف حسین کی تحریک 20 سال گزرنے کے بعد بھی کیوں نہ آگے بڑھ سکی اس کا ایک جواب تو آپنے خود دے دیا کہ چوہدری برادران یہ نہیں چاہتے اور چوہدری برادران کون ہیں کیا اب یہ بھی میں ہی بتاؤں،
آپ خود بھی خاصے کنفیوز ہیں ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم حکومت کی حمایت سے کشمیر میں جیتی اور دوسری طرف آپ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اسے چوہدریوں یا اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا ہے،کیوں کہ انہیں ایم کیو ایم کی جیت میں اپنی موت نطر آتی ہے،الطاف حسین کو آپ نواز شریف کی طرح جنرل ضیاء کی تخلیق بتاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ الطاف حسین پہلے سے ایک طلبا تنظیم اے پی ایم ایس او 1978 سے چلا رہاتھا جبکہ آپ کے نواز شریف واقعتن جنرل ضیاء کے کندھوں پر بیٹھ کر آئے تھے اور اس بات کو سمجھنے کے لیئے کتنی عقل کی ضرورت ہو گی کہ اگر ضیاء الطاف کی بیک پر ہوتا تو وہ سلوک جو ایجینسیوں نے اس کے دور میں مہاجروں اور الطاف حسین کے ساتھ کیا، کیا کرسکتیں؟
پھر تو الطاف کو بھی نواز شریف کی طرح ضیاء کی ناک کا بال ہونا چاہیئے تھا؟
وزیر اعظم اور مشرف کہیں اسی لیئے تو آپ کہ اتنے برے نہیں لگتے کہ وہ اردو بولنے والے ہیں،
ویسے آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ مشرف ایک فوجی ہے اور فوجی کسی کا نہیں ہوتا خصوصاّ جب کہ وہ جرنل یا کرنل ہو وہ صرف اپنے مفادات کا ہوتا ہے اور اگر وہ الطاف کے اپنے ہم زبان ہونے کا اتنا ہی خیال کرتا ہے تو وہ اسے کھل کر سیاست کرنے کیوں نہیں دیتا اور مسلم لیگ ق کی طرح ایم کیو ایم کے لیئے کیمپین کیوں نہیں کرتا؟ اس لیئے کہ اس کے پیچھے بیٹھے پنجابی جرنیل اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے،
آپ لکھتے ہیں کہ الطاف کے ورکر اس پر اسی طرح جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں جس طرح کوئی مسلمان نبی(ص)کی خاطر ہر وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھتا ہے،
آپ تعصب میں اس قدر آگے نکل گئے ہین کہ اللہ کا خوف بھی آپ کے دل سے نکل گیا ہے کسی عام انسان کو آپ ہی نبی(ص)سے تشبیہ دے سکتے ہیں کم سے کم ہم تو ایسا کرنا دور کی بات سونچ بھی نہیں سکتے ہیں استغفراللہ،
اور آپ کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے جیتنے کی یہی وجہ ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم جیتنے شہروں سے جیتتی ہے وہاں کے تمام لوگ ان کے کارکن ہیں یا آپ یہ بتانا چاہ رہے ہین کہ اس کے کارکن لوگوں کو زبردستی لاکر ووٹ ڈلواتے ہیں اور وہاں رہنے والے اتنے ہی شریف ہیں کہ اس پر کوئی آواز نہیں اٹھاتے کس خوب و خرگوش میں ہیں باہر آجائیں میں ووٹ نہی دیتی ہوں مجھ سے تو آج تک کسی نے زبردستی نہیں کی،اور میرے علاقے میں بہت سے لوگ ہیں جو جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور کھلم کھلا بتاتے بھی ہیں ان پر تو کوئی جبر نہیں کرتاآپ لوگ دور بیٹھ کر جو دل میں آتا ہے اندازے لگایا کرتے ہیں،
آپ کو ایم کیو ایم سے تو اختلاف ہے کہ وہ فوجی حکومت کا ساتھ دے رہی ہے مگر بلوچستان اور سرحد میں جو حکومت بنائے بیٹھے ہیں ان پر کوئی اعتراض نہیں،اور ایم کیو ایم کو جمہوری حکومتوں سے جو تحفے ملے ہیں آپریشن کلین اپ کے نام پر ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے،
اس وقت ایم کیو ایم کو موقع ملا ہے کہ وہ اپنے شہروں اور شہریوں کی بہتری کے لیئے کچھ کر سکے تو وہ کیوں نہ کرے،حالانکہ اب بھی اس کے ہاتھ ایجینسیوں نے باندھے ہوئے ہیں اور اپر سے سارے ملک کے جرائم پیشہ افراد کو یہاں لاکر چھوڑاہوا ہے،
راشد کامران صاحب آپ نے جو بات کہی ہے کہ میں نے جیئے مہاجر کے نعرے لگائے یہ بات آپ اللہ کو حاضر ناضر جان کر دوبارہ کہیں اور یاد رکھیئے گا کہ آپنے مرنا بھی اور اللہ کے سامنے حاضر بھی ہونا ہے اس لیئے جھوٹی قسم نہ کھائیے گا،
بدتمیز آپ کی کچھ باتیں تو ٹھیک ہیں جیسے کہ بھتوں والی لیکن ایکتو یہ کہ یہ سیاسی چندہ ہر جماعت اپنے ووٹروں سے وصولتی ہے اور جو لوگ زیادتی کرتے ہیں میرا خیال ہے کہ انکے خلاف ایکشن بھی لیا جاتا ہے اور انہیں پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے،
مگر یہ بات آپکی غلط ہے کہ پارٹی چھوڑنے والوں کو مار دیا جاتا ہے پثھلی پوسٹ میں مینے جو واقعہ بتایا تھا اس کے بعد میرے بھائی کے دوست کے والد صاحب نے پہلے تو وہ علاقہ چھوڑا پھر اپنے بیٹے سے ایم کیو ایم چھڑوائی اب وہ ایک اچھی فرم میں جاب کر رہا ہے اور زندہ سلامت ہے اس کے علاوہ بھی میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو ایم کیو ایم کے سرگرم کارکن تھے مگر اب اپنے گھر سنبھال رہے ہیں،
ایم کیو ایم میں لوگ کیوں شامل ہوتے تھے اس کے لیئے آپ پچھلی پوسٹ جو بے نظیر پر تھی اس مین میرا تبصرہ پڑھ لیجیئے اگر زحمت نہ ہو تو،
الطاف حسین کا چلا چلا کر بات کرنے کا اندازمجھے بھی ناپسند ہے لیکن شائد وہ حکومت اپنی بات پہنچانے کے لیئے اتنا چلایا ہے کہ اب اسی کا عادی ہوگیا ہے:)
اور یہ ڈاکٹر ت کون ہیں؟
محترمہ مہر افشاں صاحبہ یہی تو میں کہہ رہا ہوں کے میں آنکھوں دیکھا حال بتا رہاہوں میں نے ساری زندگی کراچی میں گزاری ہے میں خود اردو بولتا ہوں اور برملا کہتا ہوں کے جتنا نقصان ایم کیو ایم نے اردو بولنے والوں کو پہنچایا ہے اتنا کسی اور نے نہیں پہنچایا۔۔ آپ کیونکہ نائن زیرو کی پچھلی گلی میں رہتی ہیں اسلیے آپ کے گھر چندے کی پرچی نہیں آتی ہوگی مگر گیارہویں گلی کے بعد ہر جگہ آتی تھی۔۔۔۔
کیا وہ نعرہ یاد نہیں “چریا ہے مہاجر چریا ہے الطاف کے پیچھے چریاہے
چلیں اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو مجھے ان باتوں کا جواب دیں
1۔ برطانوی پاسپورٹ لہرا کر یہ کہنا کے یہ حق پرستوں کی فتح ہے کیسے ؟
2۔ متحدہ فوجی حکومت میں شامل ہونے کے بعد اپنے آپ کو حق پرست کیسے کہہ سکتی ہے جبکہ آرمی حکومت حق پرست ہو ہی نہیں سکتی اور متحدہ تو آرمی کی سخت مخالف ہے ؟
2۔ گورنر سندھ گورنر بننے کے بعد بھی برطانوی حکومت سے سوشل سیکیورٹی کیوں وصول کرتے رہے تھے ؟
3۔ متحدہ کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کا خرچہ کہاں سے چلتا ہے ؟ خدمت خلق فاؤنڈیشن سے یا چھینی ہوئی قربانی کی کھالوں سے ۔۔ 17 سال سے الطاف حسین کا خرچہ کون چلا رہا ہے ۔۔ جاب تو ہ کوئی کرتے نہیں ؟
4۔ متحدہ میں متبادل قیادت ہمشہ دبا کیوں دی جاتی ہے؟ جیسے عظیم طارق ، آفاق، عامر یا پھر آفتاب شیخ؟
5۔ حکومت میں ہونے کے باوجود الطاف حسین پاکستان کیوں نہیں آتے انکی جان کو اب کس سے خطرہ ہے ؟ ان لوگوں سے جنکے پیاروں کی جانیں انہوں نے لیں تھیں؟ یا فوجیوں سے جنکی حکومت میں یہ شامل ہیں؟
سنڈے ٹیلیگراف لندن کی رپورٹ جس میں یہ بتایا گیا تھا کے گورنر بننے کے بعد 10 مہینے تک گورنر سندھ سوشل سیکیورٹی وصول کرتے رہے ۔۔ http://www.telegraph.co.uk/news/main.jhtml?xml=/news/2005/06/12/nkhan112.xml
سمجھ نہیں آتا متحدہ کے عہدیداران اتنے نیک ہیں پھر بھی تمام لوگ خاص طور پر غیر جانبدار میڈیا کیوں انکے خلاف لکھتا ہے ۔۔ ضرور جماعت اسلامی کی سازش ہوگی۔۔
میں فی الحال صرف اپنا معمولی سا ذاتی تجربہ بیان کروں گا مگر پہلے بالکل مختصر تاریخ ان قاریوں کی خاطر جنہوں نے میرے بلاگ پر میری آپ بیتی نہیں پڑی ۔ میرا اور میرے بیٹے کا جھگڑا صرف ایک ہی دفعہ ہوا تھا جب میں نے بیٹے کے شناختی کارڈ کے درخواست فارم میں مادری زبان پنجابی اسلئے لکھ دی کہ اب ہم اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔ وہ حق بجانب تھا کیونکہ میری والدہ جب سے بہتر عربی پھر اردو پھر پنجابی بولتی مگر پنجابی کے کئی لفظ نہیں بول سکتی تھیں ۔ میرے والد پنجابی اردو اور عربی ایک جیسی بولتے تھے ۔ میری بیوی بھی میری والدہ کی طرح ہیں ۔ میں اردو اور پنجابی دونو ایک جیسی بولتا ہوں مگر پنجاب ۔ دہلی ۔ آگرہ ۔ لکھنؤ ۔ علی گڑھ اور حیدر آباد دکن کے لوگ مجھے اردو بولنے والا گردانتے ہیں ۔ میرے سوائے ایک کشمیری کے باقی سب دوست اردو بولنے والے رہے ۔ میرے بارہویں جماعت پاس کرنے کے بعد میرے ہم جماعتوں کو پہلی بار پتہ چلا کہ میں پنجابی بول سکتا ہوں ۔ میرے آباؤ اجداد مختلف وقتوں میں مصر ۔ فلسطین ۔ دہلی ۔ آگرہ ۔ حیدرآباد دکن ۔ جموں کشمیر اور پنجاب میں رہائش رکھتے رہے ۔ میرے کئی بہت قریبی رشتہ داروں نے مع میرے بیٹے کے سسرال والوں کے پاکستان بننے کے بعدکراچی میں رہائش اختیار کی ۔ ہم لوگ کراچی جاتے رہتے ہیں اور بعض اوقات لمبا قیام کرتے ہیں ۔
میں نے ایک بار نعمان صاحب کے بارے میں ایک بلاگ پر لکھا “وہ ایم کیو ایم کے ہیں ان سے اور کیا توقع ہو سکتی ہے”۔ ساتھ ہی میں نے نعمان صاحب کو اس کی اطلاع کر دی ۔ نعمان صاحب نے تو مجھے کچھ نہ کہا لیکن کراچی کی رہنے والی ایک محترمہ نے مجھ پر الفاظ کی مشین گن چلا دی اور مجھے منافق کا خطاب بھی دیا ۔
میرے کراچی کے دوستوں میں سے زیادہ تر کا تعلق مہاجر قومی موومنٹ سے تھا ۔ یہ میرے دوست جب بھی اسلام آباد آتے میں ان کی خاطر تواضع کرتا اور انہیں سیر کراتا ۔ میں دسمبر 1996 میں کراچی کسی میٹنگ کے سلسلہ میں گیا ۔ اس زمانہ میں اتفاق سے میرے قریبی رشتہ داروں میں سے سوائے میری پھوپھی زاد بہن کے جو نارتھ کراچی رہتی تھیں اور ان کے پاس گاڑی نہ تھی سب لوگ ملک سے باہر گئے ہوئے تھے ۔ میں نے جانے سے پہلے اُن دوستوں کو اطلاع کر دی کہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں مگر یا تو خود آ کر ہالی ڈے اِن کرونے پلازہ [پرانا نام تاج محل ہوٹل] میں ملیں یا پھر گاڑی کا بندوبست کریں سب کے جوابات سے یوں لگا کہ میرے کراچی پہنچنے پر درجن بھر دوست بمعہ گاڑیوں کے موجود ہوں گے ۔ کراچی میں میٹنگ سے فارغ ہو کر سب کو باری باری ٹیلیفون کیا ۔ کوئی سویا ہوا ہے کوئی گھر پر نہیں ہے کوئی مصروف ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب ایم کیو ایم کے جانثار تھے ۔
میں لکھنا بھول گیا کہ پچھلے چار پانچ سال سے میں سست ہو گیا ہوں ورنہ پاکستان کی سیر کرتا ہی رہتا تھا ۔ کوئٹہ سے لے کر پشاور تک جہاں بھی گیا دوستوں نے خود سے بڑی آؤ بھگت کی حالانہ کہ کئی کے ساتھ میری کوئی خاص دوستی نہ تھی صرف علیک سلیک تھی ۔ دسمبر 1996 کے بعد میں جب بھی کراچی گیا اور وہاں بسنے والے غیر ایم کیو ایم جاننے والوں کو اطلاع دی وہ مجھے میرے عزیزوں کے گھر سے لے گئے اور خاطر تواضع اور سیر کرا کر واپس چھوڑ گئے ۔
سیدہ مہر افشاں، میں آپ کی کافی سے زیادہ باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ خصوصا اس بات سے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں رہنے والے ایم کیو ایم کو تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔
اجمل صاحب میرا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں سوائے اس کے کہ میں ان کے لبرل اور سیکولر کلچر کو پسند کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں یہ آگے پروان چڑھے گا۔ باقی ایم کیو ایم میں بھی وہ برائیاں موجود ہیں جو پاکستان کی دیگر پارٹیوں میں ہیں جیسے کرسیوں کی چاہت، حکومت کا چسکا، اختیارات کا ناجائز استعمال وغیرہ۔ مگر کیا یہ برائیاں ایم ایم اے، لوٹا لیگ، پیپلز پارٹی سب میں نہیں؟
میں بار ہا لوگوں سے یہ درخواست کرچکا ہوں کہ ایم کیو ایم کو سمجھنے کے لئے انہیں کراچی کو سمجھنا ہوگا۔ یہ ایک ملٹی ایتھنک شہر ہے، جہاں بہترین ہی بقاء کی جنگ جیت پاتے ہیں۔ کراچی کا مسابقتی کلچر ایتھنک، یا مذہبی اوریجن کو اتنا اہم نہیں سمجھتا جتنا آپ لوگوں کو محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم متحدہ قومی موومنٹ بنی اور یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کی سیاست ملک کے دیگر شہروں کی جماعت اسلامی سے مختلف ہے۔
بہتر ہوگا اگر ہم اپنی بحث کو ایم کیو ایم کی کارکردگی تک ہی محدود رکھیں۔
ایم کیو ایم بننے سے پہلے کراچی لسانی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہوا تھا اور پنجابی، پٹھان اور مہاجر ملکر رہتے تھے۔ ہم نے اسی دور میںکراچی کے ایک دو چکر لگائے اور ہمیںتعصب کی بو تک نہیںآئی۔ پھر جنرل ضیا نے جماعت اسلامی اور پی پی پی کا زور توڑنے کیلئے ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد کراچی میںوہ لسانی فسادات ہوئے کہ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوتا تھا اندھیروں میںڈوب گیا۔ اس کے بعد پنجابی اور پٹھان گروپ بنے جو بعد میںً مہاجروںکیخلاف متحد ہوگئے۔ وہ دن اور آج کا دن کراچی ایم کیو ایم کا گڑھ ہے۔
ہم سب یہ جانتے ہیںکہ پاکستان بننے کے بعد مہاجر سب سے زیادہ پڑھے لکھے تھے اسلئے وہ آتے ہی بیروکریسی میںچھا گئے اور اب بھی اگر ہم بیروکریٹس یا دوسرے محکموں کے سربراہان کی فہرست کا جائزہ لیںتو ہمیںزیادھ تعداد میں اردو سپیکنگ ہی نظر آئیںگے۔ ایم کیو ایم بیوروکریسی کی اتنی سپورٹ ملنے کے باوجود وہ کاکردگی نہیںدکھا سکی جو وہ دکھا سکتی تھی۔ پچھلے سات سال کا ہی اگر جائزہ لیںتو ایم کیو ایم فوجی ڈکٹیٹرشپ کو مضبوط کرنے ہی کا سبب بنی ہے اس طرح اس کی جاگرداروں اور وڈیروں کیخلاف جنگ کا نعرہ کھوکھلا معلوم ہوتا ہے کیونکھ فوج کو انہی وڈیروں اور جاگرداروں کی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح ہم کہ سکتے ہیںکہ ایم کیو ایم انہی کیساتھ ملکر حکومت کررہی ہے جن کی استحصال قوتوں کا وہ رونا روتی رہی ہے۔
الطاف حسین کی گرفت ایم کیو ایم پر اسی طرحمضبوط ہے جس طرحبینظیر کی پی پی پی پر اور نواز شریف کی مسلم لیگ نون پر۔ اس طرح ایم کیو ایم میںپڑھی لکھی قیادت پروان نہیںچڑھ رہی۔ الطاف حسین کے اقوال، نعرے، اشعار اور تقاریر کو صحیفوں کی طرح اہمیت دی جارہی ہے حالانکھ اگر غور سے دیکھا جائے تو الطاف حسین صاحب کوئی بہت بڑے سیاستدان یا لیڈر نہیںہیں۔ ان کی سوچ کا اندازہ ان کی تقاریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ایم کیو ایم نے اگر قومی ترقی میںاپنا بھرپورکردار ادا کرنا ہے تو پھر اسے پڑھی لکھی قیادت کو آگے لانا ہوگا۔
افضل میں آپ کے تبصرے سے پوری طرح متفق ہوں شخصیت پرستی ایم کیو ایم کا بنیادی اصول ہے اور اس سے کسی کو اختلاف نہیں کے پڑھے لکھے لوگ ایم کیو ایم شامل رہے مگر ان کی صلاحیتوں کا رخ دوسری طرف موڑ دیا گیا۔۔ ایم کیو ایم کے ہر نعرے میں صرف محرومی یا الطاف حسین کی شخصیت کا ذکر ہے۔۔ تعمیر کے لیے کوئی ایک لفظ نہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نے بھی میرے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔
راشد سب سے پہلے تو یہ کہ آپ نہ تو اردو سپیکنگ مہاجر ہیں اور نہ ہی آپ نے کبھی جیئے مہاجر کا نعرہ لگایا ہے آپ نے یہ دونوں باتین غلط کہی ہیں،اس غلط بیانی کے بعد آپ کو جواب دینا میں ضروری نہیں سمجھتی لیکن پھر بھی آپ کے سوالوں کا جواب اپنی سمجھ کے مطابق دینے کی کوشش کروں گی اصل حقیقت حال تو خود الطاف حسین یا کوئی ایم کیو ایم والا ہی بتا سکتاہے،
اور آپ کی باتوں کا جواب دینے مین دیر ہوئی تو میرے بھائی ہمیں اور بھی بے شمار کام ہوتے ہیں ہم ہر وقت انٹر نیت پر نہیں بیٹھے رہتے ہیں،
آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ ایجینسیوں کی پوری کوشش تھی کہ الطاف حسین کو مروادیا جائے اور اسی لیئے وہ چاہتے تھے کہ اس کے برطانیہ بھاگنے کے باوجوداسے وہاں سے کسی طرھ واپس لایا جائے بطور مجرم ڈکلیئر کرکے اور اسی لیئے ان کی پوری کوشش تھی کہ اسے کسی حالت میں برطانیہ کی سٹیزن شپ نہ ملے،اور جب ایسا ہوگیا تو الطاف اور ایم کیو ایم نے اسے بجا طور پر اپنی فتح تسلیم کیا،
اگر متحدہ فوج کے ساتھ ہونے کی وجہ سے حق پرست نہیں تو کواور سیاسی جماعت جسے آپ لوگ سپورٹ کرتے ہیں اس الزام سے پاک نہیں،
رہا سوال ایم کیو ایم کے حکو مت میں شامل ہو نے کا تو وہ اپنی اور اردو بولنے والوں کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اگر وہ حکومت میں ہو کر بھی ایجینسیوں کی زیادتیاں برداشت کرتی ہے تو اگر حکومت میں نہ ہوتی تو اس کے ساتھ کیا نہیں ہوتا،
اگر گورنر بننے کے بعد بھی وہ برطانیہ سے سوشل سیکیورٹی وصول کرتے رہے ہیں تو اس پر اعتراض برطانیہ کو ہونا چھاہیئے آپ کو کیوں ہے اور آپ کے علاقوں کے سیاست دان جو کرپشن کرتے رہے ہیں وہ آپ لوگوں کو کیو نظر نہیں آتا یہ تو وہی بات ہوئی کے دوسرے کی آنکھ کا تو تنکہ بھی نظر آجاتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا،
متحدہ کا خرچہ کہاں سے چلتا ہے؟ابھی تو اپ لوگ اس کے جانثاروں کی فہرست گنواتے نہین تھک رہے تھے! اور صرف آپ ہی ملک سے باہر نہیں ہیں بہت سے ایم کیو ایم کے چاہنے والے باہر ملکوں میں ہیں اور خوب استیبلش ہیں،
رہا سوال کے الطاف واپس کیوں نہیں آتا تو بلکل اسے فوج اور ایجینسیوں سے اپنی جان کا خطرہ ہے،
ان کا تو بس نہیں چلتا کہ وہ ایم کیو ایم کو حکومت مین بھی شامل نہ ہونے دیتیں مگر اردو بولنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو مارنے کے باوجود وہ انہیں ختم نہ کر سکے اور اب انہیں حکومت مین شامل کرنے پر مجبور ہیں،
جن لوگوں کا آپنے متحدہ کی متابادل قیادت کے طور پر نام لیا ہے وہ ایجینسیوں کے گماشتے ہیں،اور اردو بولنے والے انہیں مسترد کر چکے ہیں،
بس یا کچھ اور!
امید کرتی ہوں کہ آپ آئندہ ایسے بے وقوفانہ سوال کرکے اپنا اور میرا وقت ضائع نہیں کریں گے:)
راشد آپ کی اس بات پر کہ اردو بولنے والوں کو جتنا نقصان ایم کیو ایم نے پہنچایا اور کسی نے نہیں،میں بس اتنا ہی کہوں گی کہ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ساری رات یوسف زلیخا سن کر صبح پوچھتے ہیں کہ زلیخا مرد تھی یا عورت:)
یہ آپ کا تو زاتی خیال ہو سکتا ہے لیکن اردو بولنے والوں کا یہ خیال بلکل نہیں ہے 🙂
اس سے پہلے کہ آپ لوگ شور شروع کریں میں آپ کو بتادوں کہ عبداللہ میرے ریلیٹو ہیں اور پچھلے دنوں جب مینے آپ لوگوں کی کج بحثی سے تنگ آکر تبصرے کرنا چھوڑ دیا تھا تو وہ تبصرے کر رہے تھے اس وقت میں ان کے یہاں تھی، ان کا نام لکھا تھا جس پر مینے غور نہیں کیا اور اپنے تبصرے بھیج دیئے،
عبداللھ کے نام سے مہر افشاں صاحبھ نے راشد صاحب کو سوالات کے جو جوابات دئے ہیں وہ ٹھوس نہیںہیں۔ مثلاْ ایم کیو ایم میںصرف الطاف صاحب کے ہی پیچھے ایجینسیاں کیوں پڑی ہوئی ہیں۔ ایم کیو ایم کی باقی قیادت بھی تو پاکستان میںہے اسے کوئی خطرہ نہیں۔ ہاں یہ ھوسکتا ہے باقی قیادت صرف خانھ پری کی حد تک ہو۔
اس منطق کی بھی سمجھ نہیںآئی کہ جس حکومت میںشامل ہونا اسی کی ایجینسیوں سے ڈرنا۔
برطانوی شہریت کا جواز بھی کوئی جاندار نہیں ہے۔
یہ بات ایم کیو ایم والے ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ وقت کب آئے گا جب الطاف صاحب ملک واپس آکر اپنی پارٹی کی قیادت سنبھالیں گے۔
گورنر کے سوشل سیکیورٹی لینے کا جواب بھی معقول نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ برطانوی حکومت انہیںپوچھے ہم کیوں۔ مگر اس طرح کے کارناموں سے لیڈر کی جو ساکھ خراب ہوتی ہے اس کا جواب تو برطانوی حکومت نے نہیںلینا۔
ہم اکثر اپنی غلطیوں کے دفاع میں ناکامی کے بعد آسان سمجھتے ہیں کہ دوسروں کی اسی طرح کی غلطیوں کا حوالہ دے کر جان چھڑا لیں۔ کیا دوسروں کے غلط کاموں کو جواز بنا کر ہمیںبھی غلط کام شروع کردینے چاہییں۔ ایسا کرنے کی بجائے ہم میںاتنا حوصلھ ہونا چاہئے کہ ہم اپنی غلطیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کریں اور توبہ کرکے گناہ معاف کرالیں۔ قیامت والے دن خدا کسی کو اس وجہ سے معاف نہیںکرے گا کہ یہی گناہ تو سب کرتے رہے ہیں۔
یہی پرابلم ہے متحدہ والوں کا کے دوسرے کی بات کبھی مانیں گے نہیں ۔۔ میں کیا کروں ؟ ویری سائن کا سرٹیفیکٹ بھیجوں اپنے اردو بولنے کا ؟
آپ نے سوالوں کے جو جوابات دیے ہیں ان میں منطق اور دلائل نہیں صرف جذباتیت ہے ۔ ہمارا گورنر اگر سوشل سیکیورٹی وصول کرتا ہے تو یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے اور آپ کا کہنا ہے ہمیں کوئی فکر ہی نہ ہو ؟
اگر ایجنسیاں متحدہ کے خلاف ہیں تو متحدہ حکومت سے الگ ہو کر اپوزیشن کے ساتھ یا علحیدہ تحریک کیوں نہیں چلاتی ؟ یا اقتدار کے مزے لوٹنے ہیں؟
یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں ایم کیو ایم کے چاہنے والے باہر ہی زیادہ ہیں ۔۔ ویسے تو قربانی کی کھالوں اور زبردستی کے چندوں سے بھی کافی آمدن ہوجاتی ہے۔۔ اب یہ نہ کہیے گا کے متحدہ زبردستی قربانی کی کھالیں جمع نہیں کرتی ۔۔ یہ تو جانور خریدنے سے پہلے ہی کھال کی رسید دے جاتے ہیں اور آدمی کو دو آپشن دیتے ہیں یا تو جانور کی کھال دو یہ اپنی۔۔
میرے سوال بیوقوفانہ ہیں یا آپ کے جواب یہ تو فیصلہ قاری اپنے تبصروں سے کریں گے۔۔ جو مجھے پتہ ہے آپ نے ماننا نہیں ہے کیونکہ متحدہ کا نعرہ ہے ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے۔۔ یعنی تحریک کی کوئی منزل نہیں صرف رہنما اہم ہے یہی وجہ ہے کے انکے قبلے اتنی دفعہ تبدیل ہوئے کے ایک دائرہ بن گیا۔۔
رہی بات باقی جماعتوں کے فوج کو سپورٹ کرنے کی تو یہی تو رونا ہے باقیوں کی تو بقا ہی فوج کی حمایت میں ہے جبکہ متحدہ کی اساس ہی وڈیروں اور فوج کے خلاف جدو جہد جو کے سوائے ایک کھوکھلے نعرے کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔
ایک اہم بات یہ سوچ کے اردو بولنے والے سارے کے سارے متحدہ کے ساتھ ہیں ایک احمقانہ بات ہے ۔۔ یہی وجہ ہے کے موجودہ الیکشن میں متحدہ اپنی کئی سیٹیں ہار گئی تھی اور کچھ سیٹیں ایسے علاقوں کی تھی جہاں ایسے اردو بولنے والے رہتے ہیں جو تھوڑے بااثر ہیں اور وہاں بدمعاشی کرنی اتنی آسان نہیں یا یہ کے ان علاقوں کا سیاسی شعور باقی کراچی سے تھوڑا اوپر ہے یا یہ کہ وہ متحدہ سے مخالفت افورڈ کر سکتے ہیں۔۔ مثال کے طور پر وہ سیٹ جو ایم اے جلیل غالبا جیتا کرتے تھے وہ انہوں نے گنوادی۔۔ اور شاید آفتاب شیخ بھی ہار گئے تھے یا ہروا دیے گئے تھے۔۔
راشد اور میرا پاکستان
اردو بولنے والے ۔ اور ایم کیو ایم کے سپورٹر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اردو بولنے والوں کا ووٹ بینک سارا کا سارا متحدہ کا نہیں۔ بلکہ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی ہمیشہ سے اردو ووٹ بینک سے ٹھیک ٹھاک ووٹ لیتے رہے ہیں۔
بیوروکریسی میں اعلی عہدوں پر اردو بولنے والے ہوا کرتے تھے۔ اور ایم کیو ایم بیوروکریسی کے ان اعلی عہدیداروں کی شدید مخالف ہے۔
گورنر سندھ ایک انتہائی مصروف آدمی ہیں۔ اور شاید میرا پاکستان کو معلوم نہیں کہ گورنر ایم کیو ایم کے نہیں وفاق کے نمائندے ہیں۔ انہوں نے گورنر کا حلف اٹھانے سے پہلے ایم کیو ایم سے استعفی دے دیا تھا۔ انہیں ایم کیو ایم کے جلسوں میں مدعو نہیں کیا جاتا اور پرویز مشرف کے ساتھ بھی وہ جس جلسے میںشرکت کرتے ہیں بطور وفاق کا نمائندہ ہوکر کرتے ہیں۔ وہ اپنے فیصلوں میں کافی خودمختار ہیں اور بطور گورنر الطاف حسین سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔ ابھی بھی وزیراعلی سندھ سے لیکر سابق نائب ناظم نعمت اللہ خان تک سب ان کی انصاف پسندی، غیر جانبداری، دیانتداری کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ سوشل سیکوریٹی والی بات نان ایشو ہے۔
پڑھا لکھا اور باشعور اردو بولنے والے بھی ایم کیو ایم کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کا آسان ترین جواب آپ پارٹی میں شامل ڈاکٹر، وکلاء، انجینئرز، کی تعداد سے بخوبی کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ غریب اور کم پڑھے لکھے اردو بولنے والے متحدہ کا اصل ووٹ بینک ہیں۔ اور بقول شیخ رشید احمد غریب اور کم پڑھے لکھے لوگ ہی پاکستان میں ووٹ ڈالتے ہیں اور ہر اچھا سیاستدان ان ہی کے ووٹ پر انحصار کرتا ہے۔
ایم کیو ایم الیکشن ہارتی جیتتی رہتی ہے خصوصا چند نشستیں کراچی کی ایسی ہیں جہاں انہیں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا ہوتا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے کہ ایم کیو ایم کو سمجھنے کے لئے کراچی کو سمجھنا ہوگا۔ کراچی کی ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی یا کوئی بھی جماعت مقابلے سے نہیں ڈرتی اور مجھے یہ بات کہتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت کراچی میں سیاست زیادہ بالغ ہے۔ ایم کیو ایم کبھی بھی کراچی سے دیگر جماعتوں صفایا نہیں کرسکتی کیونکہ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے مقابلے کی فضا پیدا کردیتے ہیں۔
مثلا جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کا ہی تقابل کریں تو نوجوان ناظم انتھک محنت کررہے ہیں تاکہ وہ کراچی کے مئیر کی جو روایتی عزت ہے اس پر بھی پورے اتریں اور نعمت اللہ خان کے دور سے بھی زیادہ کام کرکے دکھائیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام مگر ان کے خلوص اور محنت کی ہر کوئی گواہی دے گا۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کی تنقید اور سابق ناظم کراچی کی مسلسل واچ ڈاگ میں رہ کر مقابلے کی فضا میں کام کرنا کراچی میں ہی ممکن ہے۔ اگر ایم کیو ایم دھونس دھاندلی شخصی آمریت کا مربہ ہوتی تو شہر کی سیاست کو ایسی بالغ نظری نصیب نہ ہوتی۔
ابھی اس ہفتے کی ہی روداد سنئے جسقم والے اندرون سندھ سے ہزاروں کارکن لے کر کراچی آئے اور شاہراہ فیصل پر ریلی نکالی۔ جس میں اردو بولنے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
کل چیف جسٹس کیس کے سلسلے میں پیپلز پارٹی آرٹس کونسل چورنگی سے جلوس نکالا اور ایم ایم اے نے مزار قائد سے ریگل تک ریلی نکالی۔ ان تمام جلوسوںمیں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔
اور یہ سب مظاہرے پر امن رہے۔ اب اتوار کو ایم کیو ایم جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی طالبانائزیشن کے خلاف ریلی نکال رہی ہے۔
راشد آپ کے قربانی کی کھالوں اور چندے والے الزامات بہت پرانے ہیں۔ میں انہیں اسلئے نہیں مان سکتا کیونکہ میں خود شہر میں کاروبار کرتا ہوں اور مجھ سے کبھی متحدہ کے لوگوں نے بھتہ یا چندہ یا کھال نہیں مانگی۔ ایک مرتبہ زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے میرے پاس آئے تھے لیکن میں نے انہیں ایک روپیہ نہ دیا کیونکہ میں عبدالستار ایدھی اور الخدمت والوں کو پہلے ہی امداد دے چکا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ منع کرنے کے باوجود میں اسی علاقے میں آرام سے دکانداری کرتا ہوں۔ اور ایم کیو ایم کے کارکنان نے مجھے کبھی تنگ نہیں کیا۔
نعمان آپ کی باتیں کچھ حد تک درست ہیں اور میں مانتا ہوں خصوصا کراچی میں لوگوں کا سٹی ناظم کے بارے میں اچھا ریسپانس دیکھنے کو ملا ۔۔ مگر بحث کا ایک رخ ماضی بھی تھا اور ایم کیو ایم کا ماضی کبھی اسکا پیچھا نہیں چھوڑ سکتا۔۔ لوگ ایم کیو ایم کی پوسٹ پر کیوں اتنا زیادہ ریسپانس کرتے ہیں اسکا مقصد قطعا یہ نہیں کے اردو بولنے والوں سے کسی کو کوئی پرخاش ہے بلکہ لوگ کسی بھی سیاسی تبدیلی کے لیے کراچی اور لاہور کی طرف ہی دیکھتے ہیں اور ایم کیو ایم سے فوجی حکومت کے ساتھ تعاون کی توقع نہیں تھی چاہے اس کے لیے کوئی بھی حجت قائم کی جائے۔
سوشل سیکیورٹی نان ایشو اس لیے نہیں کے پھر بینظیر اور نواز کی کرپشن ، زرداری کے محل سب نان ایشو بن جائیں گے۔۔ اور گورنر کا وفاق کا نمائندہ ہونا ایک آئیڈیل صورت حال ہے جو شاید پاکستان میں ابھی پوری طرح نافذالعمل نہیں ہوئی ہے ۔۔
خیر بحث کے دوران کسی کی نیت پر اسکی قومیت پر شبہ کرنا کسی صورت مناسب نہیں میرا مقصد قطعا کسی کی دل آزاری نہیں تھا بلکہ کراچی کے شہری اور اردو اسپیکنگ ہونے کے ناطے میرا بھی حق ہے کہ میں اپنی رائے اور تجربات بھی بیان کروں اور میری تو دلی خواہش ہے کے ایم کیو ایم شخصیت پرستی سے باہر نکلے اور پاکستان کو ایک متبادل قیادت فراہم کرے بلکہ ساری سیاسی جماعتوں کو اب بھگوڑے سیاستدانوں سے جان چھڑا کر ملک کے اندر سے متبادل قیادت تلاش کرنی چاہیے چاہے وہ امین فہیم کی شکل میں ہو، مصطفی کمال کی شکل میں یا جاوید ہاشمی کی شکل میں۔
مہرافشاں صاحبہ نے عبداللہ صاحب کا نام استعمال کر کے بقول خاور کھوکھر صاحب کے میرا تراہ نکال دیا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی وضاحت بھی جلدی آ گئی ۔
محترمہ کے لکھے پر میں کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ محاورہ ہے بد سے بدنام بُرا اور مجھے اپنی عزت عزیز ہے ۔
جو بات آج تک کوئی ایم کیو ایم والا واضح نہیں کر سکا وہ یہ ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے جن میں الطاف حسین بھی شامل ہے پاکستان کے اندر ہی مہاجر کیسے ہوئے ؟
میں پاکستان بننے سے پہلے پیدا ہوا میرے بزرگ اور میں سب اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دئیے گئے اور ہم ہجرت کر کے پاکستان آئے لیکن ہم نے اپنے آپ کو کبھی مہاجر نہ کہا ۔ حالت یہ تھی کہ میں اور میری دو بہنیں گھر والوں سے علیحدہ ہو گئے تھے اور ان کے 39 دن بعد پاکستان پہنچے ۔ دسمبر کا مہینہ تھا اور میں بُشرٹ ۔ نیکر اور چپلی پہنے تھا اور ہمارے پاس کوئی گرم کپڑا نہ تھا ۔
میرے ہم عمر اور مجھ سے بڑے ساتھی جن میں بہار ۔ کانپور ۔ بھوپال ۔ حیدرآباد دکن ۔ دہلی ۔ رامپور ۔ نیا شہر ۔ آگرہ ۔ علی گڑھ اور مدراس کئی دوسرے علاقوں کے رہنے والے تھے اور پاکستان آ کر کراچی ۔ سکھر ۔ حیدرآباد ۔ پشاور ۔ ہری پور ۔ راولپنڈی وغیرہ میں آباد ہو گئے ۔ اُن میں سے کچھ اللہ کو پیارے ہو چکے ۔ میں نے اُن کے منہ سے کبھی نہ سنا کہ وہ مہاجر ہیں ۔
صدر ۔ گورنر اور سپیکر پوری قوم کے گنے جاتے ہیں اس لئے [ہمارے ملک میں صرف دکھاوے کیلئے] وہ اپنی پارٹی سے مستعفی ہو جاتے ہیں سو عشرت العباد نے ایم کیو ایم نہیں چھوڑی صرف دفتری کاروائی کی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم نے کچھ اچھے کام کئے ۔ ایک کام مجھے یاد ہے جو عظیم احمد طارق [مرحوم] نے کروایا تھا ۔ گلیوں اور سڑکوں کی صفائی جس کی جماعت اسلامی والوں اور کراچی کے پنجابیوں نے بھی تعریف کی ۔ چنانچہ وہ ہردل عزیز ہوتا دکھائی دیا ۔ انجام سب جانتے ہیں ۔ نہ صرف اسے بلکہ چشم دید گواہ کو بھی صاف کر دیا گیا کیونکہ “قائد صرف ایک” ۔
كافي نازك موضوع پر بات چل رہی ہے، اس سلسلے ميں، ميں بس اتنا ہي گوش گزار كرنا چاہوں گا كہ اس بحث پر جذبات سے كام نہ ليں۔۔۔
ميں اپنا تعارف كرا ديتا ہوں تاكہ بعد ميں يہ نہ كہا جائے كہ ميرا تعلق بھي كراچي سے نہيں ہے، ميرا نام محمد عمران ہے ميں كراچي ميں گلبرگ ٹاؤن كے يوسي ٨ ميں رہتا ہوں
اب ميں اصل موضوع كي طرف آتا ہوں۔ سب سے پہلے راشد صاحب كي يہ بات كہ جتنا نقصان اردو بولنے والوں كو ايم كيو ايم نے پہنچايا ہے اتنا تو اس كي مخالف جماعت (جماعت اسلامي) نے بھي نہيں پہنچايا۔ بدقسمتي سے ميرا تعلق بھي كبھي اس تنظيم سے رہا ہے ( اس بات كو ميں اپنا زمانہ جاہليت سے تعبير كرتا ہوں)
محترمہ مہر افشاں صاحبہ آپ سے صرف يہ التماس ہے كہ شخصيت پرستي كا چشمہ آنكھوں سے اُتاريں شاہ سے شاہ كي وفاداري نہ كريں۔
ہم لوگوں كي ياداشت اتني بُري بھي نہيں ہے كہ ہم اشتياق اظہر صاحب كہ بھول جائيں اشتياق اظہر صاحب مرحوم نہ اُس وقت الطاف بھائي (بھائي ميں اس ليے لكھ رہا ہوں كے ابھي في الحال ميں كراچي ميں ہي رہتا ہوں) كا ساتھ دياتھا جب كوئي نام لينے كہ ليے تيار نہيں تھا ليكن كيا ہوا اُن كے ساتھ ان كي ٨٠ سال كي عمر ميں پوليس كے ہاتھوں مار كھانے كو تنظيم نے كيسے فراموش كرديا۔ خير اس بات كوچھوڑيں ڈاكٹر نشاط ملك كي بات كرتے ہيں، كون نہيں جانتا ڈاكٹر صاحب كو كھيل كي دنيا ميں ڈاكٹر صاحب كا كافي بڑا نام ہے بدقسمتي سے اُن كا تعلق بھي ايم كيو ايم سے ہي تھا اُن كے قتل پر ہي ايم كيو ايم نے لوكل گورٹنمنٹ كے ايلكشن كا بائيكاٹ كيا تھا ليكن كيا ہوا اس بات كو بھي چھوڑيں كراچي كے علاقے غريب آباد ميں ايك ريپ ہوا تھا فرزانہ نامي لڑكي كا اُس لڑكي كا كيا ہوا الطاف صاحب نے خود اُس سے كيوں شادي نہيں كي اپني شادي كے ليے كيوں ايك جاگيردار گھرانے كو چُننا، اُس لڑكي كے نام پر صرف ايم كيو ايم نے اپني سياست چمكائي ہے ۔ اس كو بھي چھوڑيں ابھي زيادہ پراني بات نہيں ہے ايك نام ہوتا تھا كافي مشہور ، سابق ميئر حيدرآباد، سابق ركن قومي اسمبلي اور سابق ڈپٹي كنونئير محترم آفتاب شيخ صاحب اچانك وہ منظر سے غائب ہو گے كوئي بتا سكتا ہے كہ وہ اچانك تنظيم سے كہاں چلے گے
محترم نعمان صاحب آپ كي بات بالكل بجا كے آپ كے ساتھ كچھ نہيں ہوا ليكن ميرے بھائي اُس وقت كو بھي ياد ركھيے جب ايك پرنٹ ميڈيا كے خلاف ايم كيو ايم نے احتجاج كيا تھا اور اُس احتجاج ميں اُس اخبار كے خلاف كيا كيا ہوا تھا آپ كو ياد ہو گا اور آج بھي آپ كھلے عام قائد كے خلاف كوئي بات كہہ ديں پھر آپ كو احساس ہو گا كہ كتني آزادي ہے ۔
اب حالات تبديل ہوگئے ہيں پہلے لوگ دل سے الطاف كے ساتھ تھے ليكن اب ڈر سے ساتھ ہيں ليكن كب تك، عروج كو زوال ہے اور انشاء اللہ وہ وقت دور نہيں جب ہميں منزل چاہيے ہوگا۔۔
نعمان صاحب کی یہ بات درست ہے کہ سارے اردو بولنے والے ایم کیو ایم میں نہیں ہیں مگر یہ ماننا پڑے گا کہ ان کی اکثریت اردو ایم کیو ایم کیساتھ ہے۔ اسی لئے ہم نے لکھا کہ ایم کیو ایم بیوروکریسی کی سپورٹ کے باوجود کچھ نہیںکرسکی۔
راشد صاحب اور اجمل صاحب کی بات درست ہے کہ گورنر دکھاوے کیلئے وفاق کی علامت ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اپنی جماعت کا ہی نمائندہ ہوتا ہے اسی لیے حکومت نے ڈیل کی وجہ سےایم کیو ایم کا گورنر مقرر کیا۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ ابھی پچھلے دنوں جب ایم کیو ایم اور حکومت کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو گورنر کو ہٹانے یا اسے استعفی دینے کی باتیں منظر عام پر آئیںتھیں۔
اچھی بات ہے اگر ایم کیو ایم کراچی میں اچھے کام کررہی ہے۔ امید ہے یہ کام لوگوں کو نظر بھی آرہے ہوں گے۔
ابھی تم ہمیںان سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہے۔
ایم کیو ایم نے فوجی آمریت کا ساتھ کیوں دیا۔ کیا جن جاگیرداروں اور وڈیروں کیخلاف انہوں نے مہم چلا رکھی ہے وہ انہی کیساتھ ملکر بیٹھے ہیں۔
الطاف بھائی نے ایک قومی لیڈر ہونے کے ناطے برطانوی شہریت لیکر پاکستانی شہریت کی تذلیل کی ہے۔ وہ جتنا عرصہ چاہتے برطانیہ میں بغیر برطانوی شہریت لیے رہ سکتے تھے۔
الطاف بھائی اگر حکومت میںشامل ہیںتو پھر پاکستان آنے کیوں ڈرتے ہیں۔ ہمارے خیال میںوہ پاکستان میںرہ کر اپنے عوام اور پاکستان کی بہتر خدمت کرسکتے ہیں۔
یہ بات کراچی والے ہی بتا سکتے ہیں کہ کیا اب بھی ایم کیو ایم اتنی ہی مقبول ہے اور وہ اگلے الیکشن دوبارہ جیت جائےگی یا نہیں۔ اور اگر دوبارہ الیکشن جیتے گی تو کس بنیاد پر؟
کراچی والے ہمیں ایم کیو ایم کے سابقہ یا موجودہ اچھے کاموں کی لسٹ گنوا دیں تو اس طرح ہمیںایم کیو ایم کی کارکردگی جاننے میںآسانی رہے گی۔
کل عبداللہ صاحب کے یہاں مہمانداری کی مصروفیت میں اجمل صاحب اور افضل صاحب کے تبصروں کا جواب باقی رہ گیا تھا،
مگر اس سے پہلے نعمان کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہوں گی کہ انہوں نے سچائی بیان کی،
میں شخصیت پرستی کے زاتی طور پر بے حد خلاف ہوں لیکن اس ملک میں سیاست کا ٹرینڈ ہی کچھ ایسا ہے ،پی پی پی ہو یا مسلم لیگ یا سو کالڈ مزہبی جماعتیں سب اسی گند میں مبتلا ہیں الطاف کم سے کم انتخابات میں تو حصہ نہیں لیتا باقی سب تو یہ عیاشی بھی کر رہے ہیں اور تادم حیات اپنی جماعتوں کے سربراہ بنے ہوئے ہیں،کوئی کرپشن ان کو اس عہدے سے ہتا نہیں سکا،آپ لوگ بار بار چند الزامات کو دہرائے جا رہے ہیں ،اور میں بار بار ایک ہی بات کا جواب دینا وقت کا ضیاں سمجھتی ہوں،
افضل صاحب،آپ کی یہ خام خیالی ہے کہ ایم کیو ایم سے پہلے کراچی یا پاکستان میں تعصب نہیں تھا،ہاں یہ ضرور تھا کہ اردو بولنے والے اس تعصب کو صبر سے برداشت کر رہے تھے،اور یہ تعصب بنگالیوں اور اردو بولنے والوں دونوں سے روا رکھا جاتا تھا،
جب بنگال الگ ہو گیا تو ٹارگیٹ پر صرف اردو بولنے والے ہی رہ گئے،مہاجر، مکڑ پناہ گیر، تلیر، بھگوڑے، ہندوستوڑے اور اس جیسے نہ جانے کتنے القابات تھے جو اردو بولنے والوں کو دیئے گئے اور جب انہوں نے اس لقب کو ہی اپنی پہچان بنا کر متحد ہونے کی کوشش کی تو ان کا قتل عام کروایا گیا،یہاں اجمل صاحب کی بات کا جواب بھی پورا ہو جاتا ہے کہ اردو بولنے والوں نے اپنے آپ کو مہاجر کیوں کہا،
اس ساری بحث کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آپ لوگ الزامات در الزامات لگانے میں تو پیش پیش رہے لیکن آپ میں سے کسی نے ان مظالم پر کسی افسوس کا اظہار نہیں کیاجو اردو بولنے والوں کا سیاسی معاشی اور نسلی قتل عام کرکے کیئے گئے،پھر بھی آپ لوگوں کو دعوہ ہے کہ آپ تعصب نہیں رکھتے،
آپ لوگوں کو وہی دکھا جو آپ کو ایجینسیوں کے پے رول پر موجود اخباروں نے دکھایا اور سنایا،
اگر کوئی ایم کیو ایم کو ایک سیاسی جماعت سمجھ کر اس پر اعتراض کرے تو یہ اس کا حق ہے لیکن اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت کو بلا کسی ثبوت دہشت گرد
ڈ کلیئر کر دینا میں اس کے خلاف ہوں،
وہ دہشت گرد ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ عوام کو کرنے دیا جائے انہیں کھل کر پورے ملک میں اپنی کیمپین چلانے دی جائے
عوام خود فیصلہ کر لیں گے،
چند جھوٹے واقعات جو جماعت اسلامی کی کارگزاریاں تھیں یا ایم کیو ایم میں شامل چند کرپٹ لوگوں کے کارنامے جنہیں راشد صاحب متبادل قیادت فرماتے ہیں اور جن کے نکالے جانے کو زیادتی سمجھتے ہیں،کو ایجینسی پیڈ اخبارات کے اچھال کر پر کا کوا بنا دینے کو ہم تسلیم نہیں کرتے اور یہ کارنامے تو مزہبی جماعتیں بھی انجام دیتی ہیں تو وہ دہشت گرد کیوں نہیں کہی جاتیں،
افضل صاحب نے فرمایا ہے کہ ایم کیو ایم کو بیورو کریسی کی سپورٹ حاصل ہے اورت یہی ان کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے اس بات کی وضاحت کرنے سے پہلے میں آپ کی اس بات کا جواب دوں گی کہ بے شک پاکستان بنا تو اردو بولنے والوں کی بیوروکریسی میں اکثریت تھی اور اس کی وجہ آپ نے خود بتا دی ہے ان کا تعلیم یافتہ ہونا لیکن آج وہاں نام کو بھی اردو بولنے والے نہ ہوں گے اور جو چند نام ہیں بھی تو ان کی کوئی پاور نہیں،یہ پوائنٹ بھی نوٹ کیجیئے گا کہ اس وقت بیوروکریسی میں کرپشن نہ ہونے کے برابر تھا اور آج کرپشن کی کوئی لمٹس نہیں ہیں، چاروں صوبوں میں پنجاب کرپشن میں پہلے نمبر پر ہے اور دوسرے پر صوبہ سرحد جہاں سو کالڈ مزہبی جماعتیں حکومت کر رہی ہیں،
اب آتے ہیں بیورو کریسی کی سپورٹ پر اردو بولنے والوں کو جتنا چاہے مار لو انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد اب ایجینسیاں اس فارمولے پر عمل پیرا ہیں اسے اردو بولنے والوں کے علا قے سے باہر نکل کر قومی جمعت نہ بننے دیا جائے اور جو اردو بولنے والوں کے اکثریتی علاقے ہیں وہاں بھی ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں،
اور 2 فیصد لوگوں کی حکمرانی کو برقرار رکھا جائے،
آپ کا یہ اعتراض کے جن جاگیر داروں اور ودیروں کے خلاف مہم چلا رہے ہین ان کے ساتھ مل کر کیوں بیتھے ہیں اس کا جواب میں پہلے بھی دے چکی ہوں اب صرف اتنا کہوں گی کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہین پالا جاسکتا مخالفت میں وہ اتنا بھی نہین کر پاتے جتنا انہوں نے کر دکھایا ہے،
چلیئے ناراضگی میں آپ الطاف کو قومی لیڈر تسلیم کر گئے:)
الطاف قومی لیڈر ہے یا نہیں مگر میں ایسی کئی قومی جماعتوں کی خواہشمند ضرور ہوں جو صرف عوام کی اور پاکستان کی بات کریں اور 2 فیصد کی حکمرانی کو جڑ سے اکھڑ پھینکیں،کاش وہ دن میری زندگی میں ہی آجائے،
ایک غلط بیانی آپ نے اور کی ہے کہ ضیاء نے پی پی پی اور جماعت اسلامی کا زور توڑنے کے لیئے ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی آپ بھول گئے کہ جماعت تو اس کی دست راست تھی اور ایم کیو ایم بننے سے سب سے زیادہ نقصان تو اسی کا ہو ہے جس کے بدلے وہ لیتے نہیں تھکتی آپ کے اس دعوے کی ہوا تو یہیں نکل جاتی ہے سچ کہا ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اب تو تعصب کی پٹی آنکھوں سے اتار پھینکیں افضل صاحب اور سچے پاکستانی بن کر دکھائیں،باتیں باتیں اور صرف باتیں،باتوں سے بھی کسی کا کبھی بھلا ہوا ہے جو پاکستان کا ہوگا،
اجمل صاحب آپکا تبصرہ پڑھ کر میری بھی ہنسی نکل گئی تھی:)
لوگ ایم کیو ایم پر کیا کیا الزام لگا رہے ہیں اور آپ کو یہی شکوہ کرنے سے فرصت نہیں کہ انہوں نے آپ کی مہمان داری نہیں کی،یہ بتائیں جب ان کے خلاف آپریشن ہو رہا تھا تب آپنے اس کے خلاف آواز بلند کی تھی؟
میرا خیال ہے کہ آپ نے ایسا نہیں کیا ہوگا،اب آپ جو اسٹیبلشمنٹ کے ایک نمائندہ تھے آپ کو وہ کس خوشی مین سر آنکھوں پر بٹھاتے،
غیر ایم کیو ایم والوں کو تو آپ کی خاطر مدارات کرنا ہی چاہیئے تھی آخر وہ آپ کے گرائیں تھے:)
چلیئے آپ کا یہ شکوہ بھی دور کردیتے ہیں آپ اگر ہماری کراچی مین موجودگی میں کراچی آئے تو ہم آپ کی وہ خاطر مدارات کریں گے کہ آپ ہمیشہ یاد رکھیں گے:)
مینے آپ کو منافق کہا اس کا جواب آپکے اس جملے میں ہی چھپا ہوا ہے جو اپ نے نعمان کو کہا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے ہین ان سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے ،
آپ ایک طرف تو دین کی باتیں کرتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف آپ کا طرز عمل اس سے بلکل مختلف ہوتا ہے،کوئی اگر حق بات کرنے کی کوشش کرے تو آپ اس پر فورن کوئی لیبل چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں،آپ کا خیال ہے کہ کوئی کسی کا فیور اسی وقت کرتا ہے جب اس کی اس سے زاتی وابستگی ہو،یہ آپ کا اپنا رویہ تو ہو سکتا ہے لیکن سب لوگ آپ کے جیسے نہیں ہوتے،
میرے نزدیک ظلم ظلم ہے چاہے وہ کسی پنجابی پر ہو سندھی پر پٹھان پر یا بلوچی پر اور چاہے کسی ہندو یا عیسائی پر،
اور میرا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں صرف دو قومیتیں ہیں ایک ظالم اور دوسرے مظلوم افسوسناک بات یہ ہے کہ ظالم تو متحد ہیں اور مظلوم ٹکڑوں میں بٹے ہوئے،
اجمل صاحب پنجاب میں میرے بھی کافی رشتہ دار موجود ہیں اور انکابھی یہی دعوہ تھا کہ وہ صرف پنجابی ہیں،میرا بھائی ان سے ملنے گیاانکا گھر ڈھونڈنے میں دقت ہوئی تو وہاں کے مقامی چند لڑکے کڑے تھے اس نے نام لے کر گھر کا اڈریس پوچھا تو وہ بولے اچھا چھا وہ ہندوستانی، اور یہ واقعہ پنڈی کا ہے،
ہماری تیسری نسل اس ملک میں جوان ہو گئی اور ہم آج بھی ہندوستانی ہیں،مہاجر تو پھر اس سے بہتر لفظ ہے،
قربانیاں ہم نے بھی کم نہیں دیں میرے نانا بلگرام کے ایک بڑے زمیندار تھے جب پاکستان بنا تو وہ سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آگئے یہاں انکی ٹانگ ٹوٹ گئی اور میری چھوٹی خالہ کو ایسی بیماری ہوگئی کہ وہ بستر سے لگ گئیں،ماموں تینوں چھوٹے تھے ان کے کلیم کے کاغزات ایک فرڈیا ہمدرد بن کر لے اڑا اور والدہ بتاتی ہیں کہ وہ لوگ کے جن کے گھر سے بےشمار لوگ کھاتے تھے وہ صرف چنے ابال کر کھاتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے میرے نانا کے ماتھے پر شکن بھی نہ آتی البتہ نانی سے بچوں کی کسمپرسی دیکھی نہ جاتی اور وہ پاکستان آنے کے نانا کے فیصلے پر غصہ کرتیں تو نانا مسکرا کر یہی کہتے کہ ایک اسلامی ملک کے ہوتے ہندو ملک میں رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا بے چارے بھولے نانا اچھا ہوا جلد ہی اس دنیا سے چلے گئے،آپ کو تو نکالا گیا تھا تو آپ نے مجبورن ہجرت کی ہمارے بڑے تو خوشی سے اس ملک میں آئے تھے،
عظیم احمد طارق الطاف کا دایاں ہاتھ تھا اس کو مروانے کے پیچھے دو مقاصد تھے ایک تو الطاف اور تھریک کو کمزور کیا جئے اور پھر اس کے قتل کا الزام الطاف پر لگا کر اسے پھنسایا جائے اور اردو بولنے والوں کو اس بہانے توڑنے کی کوشش کی جائے،اس پوری تحریک کا روح رواں وہی شخص تھا الطاف تو صرف سامنے تھا،اسی لیئے ایجینسیون نے اپنی دانست میں صحیح آدمی پر ہاتھ ڈالا تھا لیکن شیطان اپنی چالیں چلتا ہے اور اللہ اپنی اور آخر جیت اللہ ہی کی ہوتی ہے ہر مظلوم کے پیچھے اللہ ہوتا ہے،
الطاف نے سندھی جاگیر دار گھرانے مین شادی کی یہ تو یاد ہے اور یہ بھول گئے کہ جب اس کے سسر پر وزیر صحت کی حیثیت سے کرپشن کا الزام لگا تو اسے فورن وزارت سے ہٹادیا گیا جس کے بعد الطاف کا گھر ٹوٹتے ٹوٹتے بچا،اور بی بی سی سے یہ خبر پتہ چلی، آپ کسی اور سیاسی جماعت سے ایسی کوئی مثال دے سکیں گے،
اور اس شادی کے پیچھے یہی مقصد تھا کہ اردو بولنے والون اور سندھی بولنے والون میں دوریاں کم کی جائیں،
عمران صاحب الطاف حسین نے فرزانہ سے شادی کی یا نہیں کی، آپ نے کیوں نہیں کرلی؟اگر آپ لوگوں کے پاس دلائل نہیں ہیں تو فضول باتین کرنے سے کہیں بہتر خاموشی ہوتی ہے،
بلکل میں بھی تو یہی کہتی ہوں کہ ایم کیو ایم کو پورے ملک میں سیاست کرنے کی ازادی دی جائے اور پھر دیکھا جائے کہ عوام کسے ووٹ دیتے ہیں،
راشد صاحب اب آخر میں آپ کی باتوں کا جواب بھی دے دوں،
مینے اپ سے کہا تھا کہ اپ اللہ کو حاضر ناضر جان کر یہ بات کہیں کہ آپ اردو بولنے والے مہاجر ہیں اور آپ نے کبھی جیئے مہاجر کا نعرہ بھی لگایا تھا اور آپ ایم کیو ایم میں شامل تھے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے میں آپ کے دعوے کو ماننے سے انکار کرتی ہوں:)
باقی اپ کی باتوں کا جواب میں دوسرے لوگوں کو جواب دیتے ہوئے دے چکی ہوں آپ وہان پڑھ لیں
مہر افشاں صاحبہ
اللہ کا بڑا کرم ہے مجھ پر مجھے کسی دوغلے کی امداد کی ضرورت نہیں ۔ آپ کا یہی تو کمال ہے کہ جس بات پر شرمندہ ہونا چاہیئے اس پر آپ ایم کیو ایم والوں کو ہنسی آتی ہے ۔ آپ نے یہ غور کرنے کی بھی کوشش نہ کی کہ جو شخص فائیو سٹار ہوٹل میں قیام کر سکتا ہے اسے کسی سے گاڑی مانگنے کی کیا ضرورت ہے ۔
آپ ساری دنیا کو جھوٹا اور صرف اپنے آپ کو سچا کہتی ہیں ۔ آپ ضرورت سے زیادہ خذباتی ہیں اور غلط بیانی بھی بہت کرتی ہیں ۔ آپ کی اطلاع کیلئے ایم کیو ایم اُردو بولنے والوں کی جماعت نہیں ہے ۔ میں لکھ چکا ہوں کہ ان میں مطلب پرست پنجابی بھی شامل ہیں ۔
عظیم احمد طارق کو آپ کے بھائی الطاف حسین کے غنڈوں نے مارا تھا اور جب تفتیش کرنے والے پولیس آفیسر کو زبانی ثبوت مل گیا تو اس کو بھی مار دیا ۔ ایم کیو ایم کے ایک شریف ایم این اے سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے اسمبلی میں اپنی نیک نیّتی سے کوئی بات کہہ دی تو آپ کے بھائی الطاف کا اسے پیغام ملا جس کا مطلب ہوتا ہے ۔ قائد کا جو غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے ۔ وہ بیچارہ اسلام آباد سے واپس گھر نہ گیا اور چھپتا پھرتا رہا اور پھر ایک بہت بڑے فوجی افسر نے اس کے ساتھ آپ کے بھائی الطاف کے پاس جا کر اس کی جان بخشی کروائی ۔ آپ کہتی ہیں کہ ایم کیو ایم فوج نے نہیں بنائی تو پھر اس فوجی افسر کی الطاف حسین نے کیوں بات مانی ؟
میرے احباب میں سے کئی ایم کیو ایم میں رہ چکے ہیں یا اس کے ہمدرد رہے ہیں لیکن غنڈا گردی سے تنگ آ کر گوشہ نشین ہو گئے ۔ ایک کے تو موت کے وارنٹ الطاف نے جاری کر دیئے تھے مگر کچھ ساتھیوں نے اس کی پچھلی وفاداری کی بنا پر اسے فوراً کراچی سے نکال دیا اور بیچارہ کئی سال دھکے کھاتا رہا پھر کہیں روزی کمانے کے قابل ہوا ۔ کراچی میں اچھا خاصا بزنس چھوڑ کے آیا تھا ۔
آپ کراچی کے متعلق اتنا نہیں جانتی جتنا میں جانتا ہوں میں ان دنوں بھی کراچی جا کر رہتا اور گھومتا پھرتا تھا جب آپ پیدا نہیں ہوئیں تھیں اور اب بھی جاتا رہتا ہوں ۔ اور میرے احباب میں ہر سیاسی اور سماجی حلقے کے لوگ شامل ہیں ۔ آپ میری زبان نہ کھلوائیں تو بہتر ہو گا ۔ غیروں کے مال پر پلنے والا کسی کا ہمدرد نہیں ہوتا ۔ الطاف حسین غیروں کے مال پر پلتے پلتے پھٹا پڑتا ہے ۔
اجمل صاحب میری غلط بیانی کا جواب تو میں آپ کو بعد میں دوں گی پہلے آپ میرے اس سوال کا جواب دیں کہ جب اردو بولنے والون کو بے گناہ مارا جا رہا تھا تب آپ کیا کر رہے تھے باقی باتیں اس کے بعد کلیئر کریں گے!
آپ اپنی زبان ضرور کھولیئے اور ہمیں یہ بھی بتائیے کہ اگر ایم کیو ایم کے لوگ اتنے ہی برے ہیں تو آپ نے 1996 میں ان سے ملنے کے لیئے رابطہ کیوں کیا؟
آپ تاج محل میں تہرتے ہیں یہ بات شائد اب ہم سب کو رٹ گئی ہے:)ایک تبصرہ مینے نواز شریف والی پوسٹ پر بھی کیا ہے اس پر بھی جواب مل جائے تو عنایت ہوگی:)
اور ہاں ایک سوال اور کہ ایم کیو ایم(حقیقی)کس کی تشکیل تھی اور کیوں کی گئی تھی؟
میں تو بہت غلط بیاں ہوں آج آپکی سچائی بھی دیکھ لیتے ہیں،
اور جو واقعات اپنے اوپر بیان کیئے ہیں آپ کے پاس انکے ثبوت بھی ہیں یا ایسی ہی ہوائیاں ہیں جیسی کہ آپ اڑایا کرتے ہیں:)
ایم کیو ایم کے خلاف زیادہ تر جرائم کے الزامات آپریشن کلین اپ اور اس کے بعد جاری رہنے والے ریاستی مظالم کے دوران میڈیا کو سرکاری ادارے لکھ کر ارسال کرتےتھے۔ یہاں زیادہ تر جو الزامات دہرائے جارہے ہیں وہ اسی پروپگینڈے پر مبنی ہیں۔ لیکن چونکہ آپ اس دور کے جرائم کو ایم کیو ایم کے حال پر ترجیح دیتے ہیں تو ایک سوال جو جو افشاں بی بی نے بھی پوچھا تھا اور میں بھی پوچھنا چاہوں گا۔ کہ اس ریاستی جبر و زیادتی کے بارے میں آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟
ایک طرف ہمارے کچھ دوست کہتے ہیں کہ جب اسلام آباد میں فاحشائیں اپنے اڈے چلائیں گی تو لوگ دینی غیرت میں آکر ان اڈوں پر حملے کریں گے کیونکہ ملک کا قانون ان اڈوں کو بند نہیں کراسکتا۔ میں یہ جاننا چاہوں گا کہ کیا یہی تھیوری کراچی میں متحدہ کے کارکنان پر بھی نافذ ہوسکتی تھی کہ جب ریاست ان پر اندھا دھند مظالم کررہی ہو اور کم عمر لڑکوں کو سڑکوں پر کتوں کی طرح مار رہی ہو تو وہ تشدد کی راہ اختیار کرسکیں؟ یا اپنا بچاؤ کرسکیں؟ یا انہیں سڑکوں پر کتے کی موت مرجانا چاہئے تھا کیونکہ یکایک ملک کی ایجنسیوں کو پتہ چل گیا تھا کہ الطاف حسین جناح پور بنارہا تھا؟
شخصیت پرستی تو ہمارے کلچر کا خاصہ ہے۔ ایم کیو ایم بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہے۔ اس کے کارکن اور لیڈر بھی ایسی ہی سوچ رکھتے ہیں۔ الطاف حسین کو ایم کیو ایم کے کارکن اپنا فکری اثاثہ سمجھتے ہیں اور ان کی سوچ یہ ہے کہ بغیر قائد کے تحریک بکھر جائے گی۔ آپ انہیں اس سوچ پر ملتزم اس لئے نہیں ٹہرا سکتے کیوں کہ آپ اس تحریک کا حصہ نہیں ہیں۔ چونکہ آپ اس تحریک کا حصہ نہیں تو آپ تحریک کے اغراض و مقاصد، پالیسیوں اور عمل پر تو تنقید کا حق رکھتے ہیں لیکن اس کے انتخاب قیادت سے آپ کا کوئی واسطہ نہیں یہ جماعت کے کارکن اور ان کے لیڈروں کا مسئلہ ہے۔ اگر وہ اسے اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں تو آپ کو اعتراض کیوں کر ہو؟ ہاں اگر آپ کو اس پر اعتراض ہے تو پہلے جماعت جوائن کریں اور پھر اپنا اعتراض جماعت کو پیش کریں۔ مگر پھر آپ کہیں گے کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو الطاف کے غنڈے ہمیں بھون ڈالیں گے۔ یعنی چٹ بھی اپنی اور پٹ بھی۔
ہمارے یہاں لوگ ہر واقعہ ایسے سناتے ہیں جیسے خود موقع پر موجود تھے۔ اور ایم کیو ایم کے جرائم کی تفاصیل تو اتنی ڈیٹیل سے بتاتے ہیں جیسے خود شریک جرم تھے۔ کبھی کوئی کہتا ہے الطاف غیروں کے مال پر پلتا ہے، کبھی کوئی کہتا ہے الطاف بھتے پر پلتا ہے۔ یہ سب سراسر پروپگینڈہ ہے اور کافی کامیاب بھی ہے۔
کسی نے اوپر تعصب کی بات کی تھی تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اردو بولنے والوں کے خلاف تعصب ابھی بھی قائم و دائم ہے۔ اس میں کمی آئی ہے تو اتنی کہ اب لوگ اپنا تعصب چھپانے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ افضل کیا ہم اسے ایم کیو ایم کی ایک کامیابی گن سکتے ہیں؟
کسی نے لکھا کہ فلاں صاحب کراچی سے کاروبار چھوڑ کر بھاگ آئے۔ میری دکان کے بالکل برابر میں ایک دکان ہے جہاں ایک صاحب کوئی چار سال پہلے لاہور سے اپنا کاروبار بیچ کر آئے تھے۔ گرچہ وہ دکان خریدنے کے چکر میں بیچارے لاہور میں اپنے مکان سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر ہنسی خوشی کراچی میں ایک چھوٹے سے دو کمروں کے مکان میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ اگر بھتہ خوری کے الزامات میں کچھ حقیقت ہوتی تو کیا وہ کراچی میں اتنے مطمئن ہوتے؟ ابھی پچھلے مہینے ہی ان کی دکان پر ایک ڈکیتی پڑی اور کوئی ڈیڑھ ہفتے پہلے ان کا موبائل فون سر عام چھین لیا گیا۔ مگر وہ جانے کا نام نہیں لیتے۔ ہر روز کراچی میں افغانستان سے لیکر برما تک کے لوگ روزگار کے لئے آتے ہیں۔ اگر ایم کیو ایم لسانی، نظریاتی یا سیاسی اختلاف برتے تو ان افغانوں، پٹھانوں، قبائلیوں، بنگالیوں، پنجابیوں، سندھیوں کا یہاں رہنا اور کام کرنا اتنا آسان ہوتا؟ نوے کی دہائی میں بھی اور آج بھی کوئی سال ایسا نہیں گزرا جس میں کراچی کی آبادی میں روزگار کے لئے آنے والوں کا اضافہ نہ ہوا ہو۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہی کلچر لاہور، راولپنڈی، گوادر، پشاور میں فروغ نہیں پاسکتا جہاں ایم کیو ایم نہیں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایم کیو ایم جیسی شرپسند جماعت کی موجودگی کے باوجود کراچی اتنا کشادہ ہے؟ اگر آپ اس کشادگی کا کریڈٹ ایم کیو ایم کو نہیں دیتے تو صحیح کرتے ہیں، مگر پھر آپ لوگوں کے بھاگ جانے کا الزام بھی ایم کیو ایم کو نہیں دے سکتے۔ اور ویسے بھی جانے والے اکا دکا ہیں اور آنے والے ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔
میں تو یہ کہتا ہوں کہ آپ پاکستان کو مذہبی انتہاپسندی سے صاف کریں ہم کراچی کے سندھی، پٹھان، بلوچی، پنجابی اور “مہاجر” کراچی کو نیویارک کی ٹکر کا تجارتی مرکز نہ بنادیں تو کہنا۔
افضل صاحب کے سوالات اچھے ہیں کہ ایم کیو ایم کی کارکردگی بتائیں۔ اور کیا ایم کیو ایم اگلا انتخاب جیتے گی۔
افضل ایم کیو ایم کی کارکردگی کو تین میدانوں میں جانچیں
ا۔ شہری حکومت کا محاذ
2۔ صوبائی حکومت کی کارکردگی
3۔ وفاقی وزراء اور قانون سازی میں ایم کیو ایم کا کردار
1۔ شہری حکومت کی کارکردگی کافی سے زیادہ اچھی ہے۔ نوجوان ناظم شہری ڈیولپمنٹ کو بیوروکریسی سے چھٹکارا دلا کر سول سوسائٹی تک لائے ہیں۔ ہر منصوبہ تشہیر کیا جاتا ہے اور کئی این جی اوز ان پر تنقید اور آراء دیتی ہیں۔ یہ ملک کے کسی حصے میں نہیں ہوتا۔ جیسے ایلیویٹڈ ہائی وے کا منصوبہ جسے شہری حکومت نے جاری کیا اور شہریوں کی تنظیم نے اس میں کئی نقائص نکال دئے ہیں اور اب ایلیویٹڈ ہائی وے کا دوسرا پلان تیار ہورہا ہے۔ انہوں نے شہر کی پلاننگ کو بہتر بنانے کے لئے بہت کام کئے ہیں جن کے فوائد دور رس ہیں۔ کراچی شہر کی حکومت اور وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی وہ جنگ جو نعمت اللہ خان نے چھیڑی تھی گرچہ مصطفی کمال وہ جیت نہیں پائے ہیں مگر انہوں نے اس محاذ کو گرم رکھا ہوا ہے۔ آلودگی، ٹریفک اور اربن پلاننگ کے منصوبوں کی بہتری پر انہوں نے کافی کام کیا ہے۔ یہ وہ کام ہیں جو لاتعداد انڈر پاسز، فلائی اوورز، سڑکوں اور دیگر انفرا اسٹرکچر کی بہتری کے کام کے علاوہ ہیں۔
2۔ صوبائی حکومت وفاق سے این ایف سی نہ حاصل کرپائی۔ یہ ان کی ایک ناکامی ہے۔ صوبے میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کی زبوں حالی دوسری ناکامی ہے۔ وڈیروں سے اختیارات منوانے میں ناکامی ان کی تیسری ناکامی ہے۔ صوبائی حکومت ایم کیو ایم کی تقریبا ناکام ہی سمجھنی چاہئے۔
3۔ وفاق میں ایم کیو ایم کے وزراء بہت محنت سے کام کرتے ہیں قانون سازی میں بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلوچستان کے مسئلے پر شور مچاتے ہیں۔ حقوق نسواں اور اقلیتوں کی حالت زار میں بہتری کے لئے قانون سازی کی کوششیں کرتے ہیں۔ مگر ہر کوئی جانتا ہے وفاق میں پارلیمان کا ادارہ کتنا کمزور ہے اور وفاقی وزراء کے پاس کرنے کو کتنے کام ہیں۔ اوور آل وفاق میں ان کی پرفارمنس اتنی خراب نہیں۔ ہاں البتہ ان کی جرنیل مشرف کے ساتھ گٹھ جوڑ یقینا قابل اعتراض ہے اور مجھے بھی بہت ناپسند ہے۔
آپ آتے ہیں دوسرا سوال کہ کیا لوگ انہیں پھر ووٹ دیں گے؟
ہاں بالکل انہیں پھر ووٹ ملیں گے۔
ابھی صرف اتنا ہی۔ افضل بہت بہت معذرت کہ اتنا لمبا تبصرہ لکھ ڈالا۔ مگر آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے اس موضوع پر بحث کی دعوت دی۔ باقی باتیں انشاءٰاللہ پھر کبھی۔
نعمان صاحب معلومات کا شکریہ اور امید ہے ہم اس بحث کو ایسے ہی آگ بڑھائیںگے نہ کہ ایک دوسرے کے کردار پر کیچڑ اچھال کر۔
کراچی میں ایم کیو ایم اچھے کام کررہی ہے یہ اچھی بات ہے۔ آپ کے سندھ کی حکومت اور وفاق میں ایم کیو ایم کی کارکردگی پر غیرجانبدارانہ رائے اچھی لگی۔
ایک اور بہت اہم سوال ہے اور اس کا جواب بھی ایم کیو ایم کا کارکن ہی دے سکتا ہے۔ کوئی یہ بتائے کہ ایم کیو ایم کی تحریک باقی تحریکوں کی طرح ایک جگہ آکر رک کیوں گئ ہے یعنی یہ کراچی اور حیدر آباد تک ہی محدود کیوںہیں۔ کسی تحریک کیلیے بیس تیس سال کا عرصہ کافی ہوتا ہے اپنا آپ دکھانے کیلیے۔ ایم کیو ایم ایک ایسی تحریک نہیںبن سکی جس طرح کی پی پی پی اور عوامی لیگ بنی تھیں۔
ایک اور بات رہ گئ۔ ایم کیو ایم کیا اپنے منشور اور سوچ کی وجہ سے فوجی حکومت میںشامل ہوئی اور اس نے جنرل مشرف کو سپورٹ کیا یا پھر اس نے وقتی طور پر اپنے منشور کو پس پشت ڈال دیا۔
سلام
سب سے پہلے تو میں مبارکباد پیش کرتا ہوں اس سایٹ کے ذمہ داروںکو۔
پھر اپ نے یہ سلسلہ شروع کرکے بھی بہت اچھا کیا ہے۔
ایم کیو ایم کی سازشانہ سیاست کوبے نقاب کرنے کے کے لیے مہاجروں کو اپنا لہو بھی پیش کرنا پڑے تو کم ہے۔ یہ وہ سرطان ہے جو قوم کو لاحق ہے اور اب اس کا خاتمہ قریب ہے کہ یہ جرنیلی ٹکڑوں کی پالتو ہے۔
مبارک اور جاری رکھیں
ہمت علی۔
مجھ سے ثبوت مانگنے والی اپنی باتوں کو ثابت شدہ سمجھتی ہیں ۔مجھے کسی کو کوئی ثبوت دینے کی ضرورت نہیں میرا اللہ صرف ایک ہے اور وہ جانتا ہے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں ۔
پیشِ خدمت ہے اظہرالحق صاحب کی 15 اپریل کی تحریر سے اقتباس ۔ ویسے مہرافشاں صاحبہ کو اس پر بھی ہنسی آئے گی اور وہ بڑے وثوق سے کہیں گی ۔ یہ الزام ہے اور پنجابیوں کی سازش ہے .
پھر شاہ فیصل کالونی میں ائیرپورٹ ریلوے اسٹیشن پر ایم کیو ایم والوں کے ہاتھوں مرتے مرتے بچا کہ میرے دوست کا بھائی یونٹ انچارج تھا ۔ ۔ ۔ اور مجھے اچھی طرح جانتا تھا ۔ ۔ ۔ جب گلبرگ میں پڑھانا شروع کیا تو کتنے ہی لوگ ملتے
چلے گئے ، اردو سپینکنگ ، سندھی ، بلوچی ، براھوی ، پٹھان اور پھر جب کچھ کام گلبرگ کے پولیس اسٹیشن میں کیا تو کتنے ہی راز کھل کہ سامنے آئے ، یہ وہ زمانہ تھا جب عزیز آباد نو گو ایریا میں آتا تھا ، جب لانڈھی کورنگی میں جانا موت کے منہ میں جانے کے برابر تھا ، مجھے یاد ہے جب میں اور مُبین لانڈھی میں ایک کارخانے کے پروگرام کی ابتدائی سٹڈی کے لئے پہنچے تو ہمیں بندوق برداروں کے سائے میں کارخانے تک لایا گیا ۔ ۔ ۔ جب ملیر کے حالات بہت خراب ہوئے ، اور گلی گلی میں جوان ٹی ٹی پستول لے کر گھوم رہے ہوتے ۔ ۔ ۔ مجھے یاد ہے اس دن میں کلاس لے رہا تھا جب ایک گولی ہماری کھڑی کا شیشہ توڑتی ہوئی دیوار میں پیوست ہو گئی ۔۔ اور لڑکوں میں سے ایک نے پستول نکال کر کھڑکی کے پاس پوزیشن لی اور ۔ ۔ ۔ ہم نے لڑکیوں کو ان کے حوالے کیا اور وہ اپنے گھر تک پہنچ گئیں ۔ ۔ ۔ ۔مجھے شاہ فیصل کالونی جانا تھا ۔ ۔۔ مگر جب تک میرا ایک اسٹوڈنٹ بھی وہاں موجود تھا میرے لئے ممکن نہیں تھا ۔ ۔ پھر ہمارے انسٹیوٹ کا گیٹ توڑنے کی کوشش کی گئی ۔ ۔ ۔ رات کے دس بجے تک جب تک ہمارے ایک اسٹوڈنٹ نے اپنے کسی جاننے والے کے توسط سے ہمیں سیف پیسج نہیں دیا ہم باہر نہیں نکل پائے ۔ ۔ ۔ اور جب ہم لوگ باہر جا رہے تھے تو ایک جوان نے آ کر کہا کہ آپ جئے الطاف کا نعرہ لگائیں ۔ ۔ تو میں نے انکار کیا اور کہا میں ایک استاد ہوں ، میں کوئی ایسی بات نہیں کر سکتا ۔ ۔ ۔ تو میری کنپٹی پر اسنے ٹی ٹی رکھ دی ۔ ۔ اور پھر مطالبہ کیا ۔ ۔ مجھ سے میرے
ساتھیوں نے کہا کہ کہ دو کہنے میں کیا حرج ہے مگر میں نے کہا نہیں ۔ ۔ یہ روز کا معاملہ ہے ۔ ۔ ۔ اسنے بہت دھمکایا مگر میں نہیں مانا ۔ ۔ ۔ اسنے کہا کہ تم پھر کبھی ملیر میں قدم نہیں رکھ سکو گے ۔۔ ۔ میں نے کہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو ایسا ہی ہو گا اگر نہیں تو میں اللہ سے نہیں لڑ سکتا ۔ ۔ ۔ اتنے میں لال مسجد والے ۔ ۔ ۔ آ گئے اور مجھے سر کہ کہ مخاطب کیا تو انہیں پتہ چلا کہ میں واقعٰی پڑھاتا ہوں ۔ ۔ تو اسنے معذرت کی ۔ ۔ میں نے کہا اللہ تمہیں معاف کرے ۔ ۔ ۔ ایک وقت میں گلبرگ میں اسٹوڈنٹ سر اظہر کے لئے آیا کرتے تھے ۔ ۔ اور وہ علاقہ سارے کا سارا اردو اسپیکنگ کا ہے ۔ ۔ ۔ اور سب کو معلوم تھا کہ سر اظہر اردو اسپیکنگ نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مگر پھر بھی کبھی کسی نے یہ احساس نہیں دلایا ۔ ۔ یادیں تو بہت ہیں ۔ ۔ جو وقتاً فوقتاً لکھتا رہوں گا ۔ ۔ ۔ مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ میری آنکھوں سے اس رکشہ ڈرائیور کی موت نہیں ہٹتی جسے شاہراہ پاکستان پر روکا گیا اور کہا گیا کہ جئے الطاف بولو اور جب وہ اکڑ گیا تو اسے کتنے ہی لوگوں کی موجودگی میں گولی مار دی گئیں ۔ ۔ اور مجھے یاد ہے کہ میرے منہ سے دو دن تک صحیح طرح سے الفاظ نہیں نکلتے تھے ۔ ۔ ۔ مگر شاید اب وقت بدل گیا ہے ۔ ۔ ۔ کاش بدل جائے ۔۔
اظہر کی اس کہانی میں ہر نئی بحث میں نئی جزئیات شامل ہوتی ہیں۔ میرا پاکستان، میں نے اور افشاں نے اپنے تبصرہ جات میں کچھ سوالات کرے ہیں جن کے جوابات آپ کو اور ایم کیو ایم مخالف دیگر لوگوں کو دینا چاہئے۔
اجمل صاحب آپ کی اوپر لکھی گئی کہانی ہمارے سوالات کا جواب نہیں ہے آپ یا تو جواب دیجیئے یا اپنے آپکو غلط تسلیم کیجیئے،ابھی تو ہمارے پاس آپ کے لیئے اور بھی سوالات ہیں،مگر پہلے ان کا جواب مل جائیے،
افضل صاحب،
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا،
افضل صاحب آپ سمجھے نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے،
نعمان نے سندھ کی حکومت اور وفاق میں ان کی کارکردگی پر جو بات کی ہے ان ڈائریکٹلی وہ ایم کیو ایم کی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی داداگیری اور سندھ کے ودیروں کی فرعونیت کی نشاندہی ہے،جس کی بناء پر صوبائی حکومت کو ہم ناکام تصور کرتے ہیں،
دے ان کو سمجھ اور یا دے مجھ کو زبان اور
افضل آپ کے سوال کا جواب بہت سادہ ہے۔ ایم کیو ایم باقی ماندہ پاکستان کے کلچر میں فٹ نہیں بیٹھتی۔
پنجاب۔ سیاسی جماعتیں چوہدراہٹوں کے بل پر چلتی ہیں۔ جس چوہدری کا جتنا زور ہے اتنا وہ عوام میں مقبول ہے۔ وہاں سیاسی کارکن لوٹ کھسوٹ کے لئے جماعتوں میں شامل ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے اہل خانہ آرمی میں ملازم ہیں، زراعت کا پیشہ اور ایم کیو ایم کی کالا باغ ڈیم مخالفت یہ سب فیکٹرز ہیں۔
سرحد میں ایم کیو ایم کو ایجنسیاں کبھی گھسنے نہیں دیں گی کیونکہ وہاں وہ طالبانائزیشن کا تجربہ کررہے ہیں اور اس میں مداخلت بالکل ناقابل برداشت ہوگی۔ وہاں آپ حقوق نسواں کی بات کریں گے تو لوگ ڈنڈے ماریں گے۔
بلوچستان پر قبائلی، لسانی، لوٹا کریسی سیاست قابض ہے۔ آبادی بہت کم ہے اور ناخواندگی حد سے زیادہ
ہاں البتہ سندھ میں ایم کیو ایم کو مقبولیت ملی ہے اور مزید ملے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم لبرل ازم، سیکولر ازم میں پیپلز پارٹی کی مماثل ہے۔ کالا باغ ڈیم، تعلیم، صحت، این ایف سی کے مسائل پر جدوجہد سے ان کا ووٹ بینک بہتر ہوگا۔ ایم کیو ایم وہاں وڈیروں کی مخالفت کی بیس پر مزید مقبولیت حاصل کرے گی۔
ان سب چیزوں کے علاوہ ایم کیو ایم کیخلاف جو عناد، بغض اور تعصب (جو ان تبصرہ جات میں واضح نظر آتا ہے) سسٹمیٹک پروپگینڈے کے ذریعے پھیلایا گیا ہے اسے دور ہونے میں مزید کچھ سال لگیں گے۔
میں حمایت یا مخالفت میں کچھ نہیں لکھنا چاہتا صرف نعمان سے عرض کرنی تھی کے سسٹیمٹک پروپیگنڈے میں زیادہ تر سنی سنائی یا میڈیا کے ذریعے کہانیاں ہوتی ہیں۔۔ جبکہ زیادہ تر لوگ اپنے تجربات اور اپنی گلیوں کے قصے بیان کر رہے ہیں جو پروپیگنڈے کا حصہ معلوم نہیں ہوتے چناچہ اسے پروپیگنڈا کہنا میرے حساب سے درست نہیں۔۔
جو بات ماننے کی ہے وہ یہ کے متحدہ نہ صرف ایک خوف کی علامت تھی بلکہ اب بھی ہے اور عام لوگ حتی کے میڈیا بھی متحدہ کے خلاف کوئی بات کرتے ہوئے خوف کا شکار رہتا ہے ۔۔ یہی وجہ ہے کے جیو اور آج ٹی وی کے پروگرامز میں متحدہ کے لوگوںکی پیروڈی نہیں بنائی جاتی۔۔
مہر افشاں صاحبہ اگر کوئی آپ کو دو مرتبہ اپنے بارے میں ایک بات کہہ لے تو اسے مان لیں ۔۔ بار بار قسم کھانا بھی جھوٹے ہونے کی نشانی ہوتی ہے اسلیے آپ مان لیں کے میںاردو اسپیگنگ ہوں ۔۔ کیا کسی نے آپ سے قسم کھانے کو کہا کے آپ عبداللہ ہیں یا مہر افشاں؟ آپ نے بتایا اور سب نے مان لیا اور اس پر اعتراض نہیں کیا ۔۔ اور یہ بھی مان لیں کے ایم کیو ایم کے سخت مخالفین میں اردو بولنے والے بہت ہی سخت مخالف ہیں کیونکہ اردو بولنے والوں نے براہ راست انکے مظالم اور دہشت گردی سہی ہے۔۔
نعمان میں سمجھتا ہوں کے تمام تبصروں میں آپ کی باتیں جاندار اور دوسروں کو سوچنے کا موقع فراہم کرتی ہیں ۔۔ حکومتی کارکردگی کے لحاظ سے میرا جو نقطہ ہے وہ یہ کے متحدہ کو صرف اس حکومت ہی نہیں بلکہ پچھلی حکومتوں کے دوران بھی ایسے مواقع ملے جب وہ اپنے مطالبات یا تحریک کے بنیادی مطالبات منوا سکتے تھے۔۔ جیسے کے کوٹہ سسٹم ، محصورین پاکستانی، صوبائی خود مختاری، الطاف حسین پر اگر جعلی مقدمات ہیں تو انکا خاتمہ مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کے ایسا کچھ نہیں ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایک کر کے ایم کیو ایم شاید ان مطالبات سے دست بردار ہو رہی ہے۔۔ ایک زمانے میں تو وزیر تعلیم تک انکا رہا مگر کوٹہ سسٹم ختم نہ ہوا۔ اگر یہ کہا جائے کے وفاق انکو کھل کر کام کرنے نہیںدیتا تو ایم کیو ایم تو ایک تحریک ہے جو اپنے آپ کو حق پرست کہتی ہے اسے فورا حکوت سے الگ ہوجانا چاہیے تھا اس سے عام عوام میں شاید ہمدردی بڑھتی مگر ایسا نہیں ہوا چناچہ اب یہ کہنا کے ایم کیو ایم حق پرست ہے میری دانست میں غلط ایم کیو ایم بھی ایک مصلحت پرست جماعت ہی ہے اسکو غلط نہ لیں حق پرست کا مطلب حق کے لیے کسی مصلحت میں نہ پڑھنا۔۔ تو میرا خیال ہے الزامات کچھ وزن دار ہیں اردو بولنے والے ایم کیو ایم کی قیادت سے کم از کم جرنیلی حکومت کا ساتھ دینے کی توقع نہیں کر رہی تھی اور یہی وجہ ہے کے ہمدرد قیادت کے سوال اٹھاتے ہیں جہاں فرد واحد ہر فیصلہ کر رہا ہے ۔۔ آخر میں معذرت اگر تلخی کلام غالب رہی مگر ایم کیو ایم کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے کے ایم کیو ایم کا نام آتے ہیں کیوں لوگ ترش ہو جاتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی سے زیادہ آرمی کے عتاب کا شکار کوئی جماعت نہیں رہی مگر پھر بھی انکی شہرت دہشت گردی کے حوالے سے اتنی خراب نہیں جتنی ایم کیو ایم کی ہے۔۔ اسکے علاوہ زمانہ امن میں یعنی اس الیکشن کے جیتنے کی خوشی میں ایم کیو ایم نے پھر وہی روایتی اسلحہ کی نمائش اور فائرنگ کو اپنایا چناچہ یہ کہنا کے صرف آپریشن کے دوران ہوا ایسا نہیں مختلف ریلیوں اور اپنی خوشی کے موقع پر بھی یہ لوگ شہریوں کو برابر کا تنگ کرتے ہیں۔۔ ایم کیو ایم کے وزرا بھی مجموعی طور پر اسی اذیت کا باعث بنتے ہیں جیسا کے عام وزرا جبکہ بقول ایم کیو ایم کے لوگ ان کے ساتھ ہیں پھر عزیز آباد آمد پر کیسی سیکیورٹی اور کیسا ٹریفک جام ؟
سب سے پہلے یہ کہ کسی نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ جب اردو بولنے والوں پر ظلم ہوا تو انہوں نے کیا کیا،غالبن اس کا جواب کسی کے پاس ہوگا بھی نہیں کیونکہ یہ سب تو خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے کہ اردو بولنے والے دہشت گرد مارے جا رہے ہیں،
افضل صاحب،آپ کا سوال ہے کہ ایم کیو ایم چند علاقوں تک محدود کیوں ہے اور وہ پی پی پی اور عوامی لیگ جیسی تحریک کیوں نہ بن سکی؟
ہمارے خیال میں آپ کا سوال یہ ہونا چاہیئے تھا کہ ایم کیو ایم اتنے آپریشن کلین اپس کے باوجود باقی کیسے ہے؟
اور یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ ایک نظریاتی تحریک تھی،اسی لیئے فوج کی بنائی ہوئی پی پی آئی اور حقیقی آج نظر بھی نہیں آتی ہیں اور عوام نے انہیں مسترد کردیا ہے،
عوامی لیگ کو بھی صرف بنگال میں مقبولیے حاصل ہوئی باقی صوبوں میں اسے کوئی اہمیت حاصل نہ تھی،
رہا سوال پی پی پی کا تو ایک تو یہ فوج کی تشکیل تھی اور پھیر وڈیروں کی جماعت تھی اور وڈیرے ہوں یا جاگیر دار ان کے مفاد ایک ہی ہوتے ہیں اس لیئے اسے دونوں جگہ پزیرائی حاصل ہوئی اور جیسے ہی بھٹو نے زرعی اصلاحات شروع کیں صرف پنجاب کے جاگیر داروں نے ہی نہیں سندھ کے وڈیروں نے بھی اس کی پیٹھ سے ہاتھ اٹھا لیا اور بعد میں اس کی موت کو بھی ان بے شرموں نے کیش کیا،باقی جواب آپ کو نعمان دے ہی چکے ہیں،جب تک اس ملک کے عوام اپنے حقوق کو نہیں پہچانہیں گے یہ بڑے انہیں اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رکھیں گے،
http://www.bbc.co.uk/urdu/specials/1348_muz_missing/page3.shtml
(KUCH NAZRA-ّّّّKARAM ADHER BE KAR LAA)
’ہم مر کیوں نہیں جاتے۔۔۔‘
موسم بہار کی آمد پر لوگ خوش ہیں لیکن ادھیڑ عمر کی موتیاں بی بی کے چہرے پر دکھ نمایاں ہے۔ وہ اپنے لاپتہ بیٹے کی واپسی کی دعائیں کر رہی ہیں۔ نو نومبر سن دو ہزار تین کو رڈ گاؤں کی موتیاں بی بی کا بیٹا محمد یاسین گھر کا سامان خریدنے کوٹلی شہر گیا مگر آج تک نہیں لوٹا۔ موتیاں نے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے کشمیر کے اس علاقے کی ہائیکورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے جس کے مطابق ان کا بیٹا آئی ایس آئی کی تحویل میں ہے۔
’نومبر کی گیارہ تاریخ تھی۔ میرا بیٹا کوٹلی شہر میں گھر کا سامان خریدنے گیا تھا۔ وہاں پر پاکستان کے خفیہ ادارے آئی آیس آئی کے اہلکار اس کو اٹھا کر لے گئے۔ انیس ماہ تک اس کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے کس حال میں ہے زندہ ہے یا مردہ۔ میرے بیٹے محمد یاسین کی ٹانگ پہلے ہی بارودی سرنگ میں ضائع ہوگئی ہے‘
’میں نے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے راولپنڈی جی۔ ایچ۔ کیو میں درخواست دینے کے ساتھ ساتھ کشمیر ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے۔ میرے تین اور بیٹے بھی ہیں جبکہ پانچ میں سے تین بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔ واحد کماؤ پوت میرا لاپتہ بیٹا ہی تھا۔ اب میں بھیک مانگ کر گزارہ کرتی ہوں۔ انیس ماہ بعد ہم نے ہائی کورٹ میں جبس بے جاہ کی رٹ دائر کی جس کے بعد ہماری ملاقات میرے بیٹے سے کروائی گئی۔ یہ ملاقات کوٹلی شہر کے قریب ایک فوجی کیمپ میں ہوئی اور میرے بیٹے کو بیڑیاں پہنائی ہوئی تھیں۔ وہ معذور ہے۔ اس کی ٹانگ بارودی سرنگ پھٹنے کے باعث ضائع ہوئی ہے، پھر بھی۔۔۔
’میرے بیٹے سے ایک دو ملاقاتیں کروائیں گئیں اور دو ماہ سے ملاقات بھی نہیں ہو رہی اور یہ کہ اب ہم وہاں جاتے ہیں تو ہمیں ٹال دیا جاتا ہے اور مختلف بہانے کرتے ہیں۔ کھبی کہتے ہیں کہ آپ کا بیٹا یہاں نہیں ہے اور کبھی کہتے ہیں ملاقات بند ہوگئی ہے۔ میں نے اپنے بیٹے کی تلاش کے لئے اسی ہزار روپے قرض لے کر خرچ کئے لیکن اب ملاقات بھی نہیں کرنے دیتے۔
’میں نے کشمیر کی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو درخواست دی، پھر میں نے راولپنڈی میں جی ایچ کیو میں درخواست دی۔ ہمیں کہا گیا میرے بیٹے کو چھوڑ دیا جائے گا لیکن ابھی تک نہیں چھوڑا گیا۔ ہمیں آج تک نہیں بتایا گیا کہ میرے بیٹے کا قصور کیا ہے، اگر وہ جاسوس ہے، مجرم ہے، تو اس کا قصور سامنے لاؤ اور میرے سامنے گولی مار دو ۔ میں اپنے بیٹے کا خون معاف کردوں گی۔
’میرے بیٹے کے دو بچے ہیں۔ ہمارا واحد سہارا میرا وہی بیٹا ہے۔ ہمارا کوئی ذریعہ روزگار نہیں۔ میرا شوہر دمے کا مریض ہے۔ ہم مانگ کر گزارہ کرتے ہیں۔ ہم کیا کریں، کدھر جائیں، ہماری زمینیں لائن آف کنڑول کے دوسری طرف ہیں۔ ہمارا سب کچھ ادھر ہے۔ ہم گھاس کاٹنے یا لکڑی کے لئے چوری چھپے دوسری طرف جاتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہاں کے مرد بھی بھارت کے جاسوس ہیں اور عورتیں بھی۔ پاکستان کے خفیہ ادارے کے لوگوں نے میرے بیٹے کو اٹھا لیا۔ اب ہمیں بھی تنگ کرتے ہیں۔ وہ کسی کے بھی گھر میں گھس آتے ہیں۔ کبھی دن کو آتے ہیں اور کبھی رات کو آتے ہیں۔ بچے اور بچیاں خوفزدہ ہوتے ہیں اور ان کا خواتین کے ساتھ ناشائستہ سلوک ہوتا ہے۔
ادھر ہندو بھارتی فوج بھی ہمیں تنگ کرتی ہے۔ وہ ہمیں گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔ بھارتی فوجیوں نے دونوں ملکوں کی کشیدگی کے دوران میرے دو بھائیوں اور داماد کو گولی مار کر ہلاک کیا۔ اگر ہم ان کے جاسوس ہیں تو وہ ہم پر کیوں گولیاں برساتے ہیں؟ میرے بیٹے کی ٹانگ بارودی سرنگ میں ضائع ہوگئی اور اب اس کی یہ حالت ہے۔ ہمارا بس یہ قصور ہے کہ ہم لائن آف کنڑول کے قریب رہتے ہیں اس لئے ہم جاسوس ٹھہرے۔
’ہماری یہاں رہنے کی کوئی خواہش نہیں۔ ہم کو یہاں سے نکالو یا ہم سب کوگولی مار دو۔ مجھے مار دو میری بیٹوں اور بیٹیوں کو مار دو، میرے نواسوں کو مار دو تاکہ پریشانی ہی ختم ہو۔ اس زندگی سے موت اچھی ہے۔ ہم مر کیوں نہیں جاتے۔۔۔
’آزاد‘ کشمیر میں لاپتہ۔۔۔
محمد افتخار
موتیاں بی بی
محمد اکرم
کنیز اختر
تنویر بی بی
Leave A Reply