ہماري پچھلي تين چار پوسٹوں ميں ايک ہي بحث چلي ہوئي ہے يعني کراچي کے حالات اور ان کے پيچھے چھپے ہوئے حقائق۔ اس بحث ميں ہم لوگ دوگروپوں ميں تقسيم ہوچکے ہيں۔ ايک پرو ايم کيو ايم اور ايک ايم کيوايم مخالف يا پرو پاکستاني۔ اس کامطلب يہ نہيں کہ خدانخواستہ ايم کيو ايم والے پاکستاني نہيں ہيں۔ ہمارا دوسرے گروپ کو پروپاکستاني کہنے کا صرف يہ مطلب تھا کہ ان کي نيت ميں بھي خلوص ہے اور وہ ايم کيو ايم کي مخالفت بھي اگر کرتے ہيں تو پاکستان کي محبت ميں۔ ہوسکتا ہے ہم اس نقطے کو واضح طور پر بيان نہ کرپائے ہوں اور اميد کرتے ہيں ايم کيو ايم گروپ اس نقطے کو مثبت انداز ميں لے گا۔  ايم کيو ايم والے گروپ کو ايک غلط فہمي يہ ہے کہ وہ مخالف گروپ کے لوگوں کو متعصب اور پنجابي سمجھتے ہيں۔ اگر آپ ايم کيو ايم مخالف گروپ کي تحريريں پڑہيں تو ان ميں کوئي تعصب نظر نہيں آتا۔ ان کا صرف اتنا قصور ہے کہ ان کے خيالات ايم کيو ايم سے نہيں ملتے۔يہ کوئي اتنا بڑا جرم نہيں ہے کہ انہيں پنجاب کے کھاتے ميں ڈال کر ان پر خوب لعن طعن کي جائے۔

 اچھے اور سلجھے ہوئے ذہنوں کي يہي عادت ہوتي ہے کہ وہ تحمل اور بردباري سے بات سنتے ہيں اور پھر مدلل جواب ديتے ہيں۔ اس بحث ميں کبھي کبھي مخالف فريق کي باتيں دل دکھانے والي بھي ہوتي ہيں مگر ان باتوں کا جواب بھي اگر حوصلے سے ديا جائے توپھر بحث کے مثبت نتائج نکلتے ہيں۔ اس طرح بحث کرنےوالوں کيساتھ ساتھ پڑھنے والوں کي بھي تربيت ہوتي ہے۔ اگر بحث کرنے والے حوصلہ ہار جائيں تو پھر وہي ہوتا ہے جو چند ماہ قبل شعيب کے “خدا سے ملو” والي پوسٹ کے چھپنے پر بحث کے بعد ہوا تھا۔ اس بحث نے گالي گلوچ کي شکل اختيار کرلي اور اردو سيارہ والوں کو مجبوراً کئي بلاگرز کو بلاک کرنا پڑا۔

آئيں ہم اس واقعے سے سبق سيکھيں اور بحث کو ايک اچھے اور منجھے ہوۓ تجربہ کار انسان کي طرح آگے بڑھائيں۔ اميد ہے تمام شرکا صبر کا دامن ہاتھ سے نہيں چھوڑيں گے اور اس بحث کو اپنے مختصر دلائل کيساتھ اتنا جاندار بنا ديں گے کہ مستقبل کے قاري کو ايم کيو ايم کي تاريخ جاننے ميں مدد ملے گي۔

ہماري پہلي دو چار تحريريں بھي ايم کيو ايم پر تنقيد پر مشتمل تھيں اور يقين مانيں سب سے زيادہ تبصرے انہي تحريروں پر لکھے گئے۔ ان تبصروں سے ہم نے يہي تاثر قائم کيا کہ ہم لوگ مخالفت برائے مخالفت ميں الجھ کر اصل مسئلے کو پس پشت ڈال ديتےہيں۔ اگر ہم مخالفت کرنے والے کي نيت پر شک کرنے لگيں تو اس کا تبصرہ جہالت پر مبني لگنے لگتا ہے۔ ليکن اگر ہم اپنے مخالف کو بھي ايک اچھا اور مخلص انسان مان ليں تو پھر اس کي باتوں سے ہم سيکھتے بھي ہيں اور اس کيساتھ بحث کا لطف بھي اٹھاتے ہيں۔

ايم کيو ايم جس طرح بھي بني اس سے ہٹ کر اگر اس کي پچھلے دس پندرہ سال کي کاکردگي کا جائزہ ليا جاۓ تو يہ جماعت بھي دوسري سياسي جماعتوں کي طرح خود غرضوں کا ايک ٹولہ نظر آتي ہے۔ نواز شريف اور بينظير کے ادوار ميں اسے حکومت ميں شامل ہونے کا موقع ملا مگر اس کي کارکردگي دوسري جماعتوں کي طرح صفر ہي رہي۔ اب ايم کيو ايم سات سال سے فوجي حکومت کو سپورٹ کرنے کيساتھ ساتھ سندھ اور کراچي پر حکومت بھي کررہي ہےمگر کراچي کے حالات جوں کے توں ہيں۔

ہميں ايم کيو ايم کے سربراہ الطاف حسين اور بينظر ،نواز شريف ميں کئ مماثلت نظر آتي ہيں۔ الطاف صاحب بھي بينظير ک طرح خود ساختہ جلاوطني اختيار کئے ہوئے ہيں۔ انہوں نے بھي نواز شريف کي طرح جيل جانے کي بجائے باہر رہنا پسند کيا۔ ايم کيو ايم کے الطاف بھائي اسي طرح ايک فوجي جنرل کے دور ميںليڈر بنے جس طرح بھٹو جنرل ايوب کو ڈيڈی کہ کر سياست ميں آئے اور نواز شريف بھي جنرل ضيا کے زير سايہ سياست ميں چمکے۔ الطاف صاحب بھي ہمارے وزير اعظم اور ان کي کابينہ کے بيشتر ارکان کي طرح دوہري شہريت رکھتے ہيں۔ 

ايم کيو ايم کے الطاف صاحب کے کئي ايسے منفرد ريکارڈ ہيں جنہيں توڑنا مستقبل ميں شايد ناممکن نہيں تو مشکل ضرور ہوگا۔ الطاف صاحب نے  ٹيليفونک خطاب کو رواج ديا۔ الطاف صاحب نے لساني بنيادوں پر ايک تحريک کي بنياد رکھي جس کو بعد ميں نام بدل کر قومي تحريک بنانے کي ناکام کوشش کي گئ۔ الطاف صاحب کي تحريک بيس سال گزرنے کے بعد بھي حيدر آباد اور کراچي سے آگے نہيں بڑھ سکي۔جماعت اسلامي کي طرح ايم کيو ايم ايک منظم جماعت تھي اور اب بھي ہے۔ اس کے ورکر الطاف صاحب پر اسي طرح جان نثار کرنے کو تيار رہتے ہيں جس طرح ايک مسلمان اپنے نبي صلعم کي خاطر ہر وقت جان ہتھيلي پر تيار رکھتا ہے۔ يہي خوبي ايم کيو ايم کو دوسري سياسي جماعتوں کے مقابلے ميں برتري دلاتي ہے اور اسي وجہ سے ايم کيو ايم لمبے عرصے سے کراچي سے قومي اسمبلي کي نشستيں جيتتي آرہي ہے۔ الطاف صاحب ايسے لیڈر ہيں جو پاکستان کي ايک اہم جماعت کے سربراہ ہوتے ہوئے دوسرے ملک کے شہري بنے۔ الطاف حسين صاحب نے اپني تقريرکے انداز کو ذاکرانہ سٹائل ميں بدل کر ايک نئ طرح ڈالي ہے۔ وہ بيان بھي ديں تو لگتا ہے نوحہ پڑھ رہے ہيں۔ ايم کيو ايم کا ايک اور منفرد انداز اس کا ميڈيا کا صحيح استعمال ہے۔ کسي کي اگر برڈ فلو سے مرغي بھي مرجائے تو ايم کيو ايم کے قائد کا بيان آجاتا ہے اور اسے ميڈيا بڑي خبر کے طور پر کوريج ديتا ہے۔ 

 ايم کيو ايم نے آزاد کشمير کے پچھلے انتخابات  ميں  ايک آدھ سيٹ حکومت کي مدد سے جيت کر کوشش کي کہ وہ ايک قومي جماعت بن سکے مگر اس کي راہ ميں سب سے زيادہ رکاوٹيں اس کي حليف جماعت مسلم ليگ ق کے چوہدريوں نے پيدا کيں۔ اس کے پنجاب ميں قائم کردہ دفاتر کو بزرو طاقت بند کرديا اور اسے اپنے پاؤں جمانے نہيں ديے۔ يہ الطاف صاحب کي بردباري ہے کہ اتني بڑي مخالفت کے باوجود انہوں نے مسلم ليگ ق کي حکومت سے عليحدگي اختيار نہيں کي۔ ہوسکتا ہے جنرل مشرف صاحب کي آشيرباد ہردفعہ الطاف صاحب کو حکومت مخالف کوئي بڑا قدم اٹھانے سے روکتي ہو۔ جنرل صاحب چونکہ خود اردو سپيکنگ ہيں اسليے ہوسکتا ہے ان کي ہمدردياں بھي مسلم ليگ ق کے مقابلے میں ايم کيو ايم کيساتھ زيادہ ہوں۔

ہميں ايم کيو ايم سے يہ اختلاف ہے کہ اس نے بھي ايک فوجي حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے۔ يہ وہ فوجي حکومت ہے جو جعلي جمہوريت کي آڑ ميں ڈنڈے کے زور پر پاکستان پر حکومت کررہي ہے۔ اس فوجي حکومت نے بگٹی کو قتل کرکے، باجوڑ ميں طلبا کر شہيد کرکے، چيف جسٹس کو معطل کرکے ايسے غير جمہوري کام کئے ہيں جن کي مخالفت الطاف حسين  نےکي تو ہے مگر حکومت سے علیحدگي اختيار نہيں کي۔ کل کو اگر تاريخ جنرل مشرف کے سياہ دور کے سياہ کارناموں کا ذکر کرے گي تو ايم کيو ايم کو بھي اس کا مجرم قرار دے گي۔

ہم نے اس بحث کو جاندار بنانے کيليے اچھا خاص مواد مہيا کرديا ہے اور اميد يہي ہے کہ يہ بحث مثبت انداز ميں آگے بڑھے گي۔ خدارا ہميں ايم کيو ايم کي مخالفت پر پنجابي کا طعنہ نہ ديجئے گا۔ ہم خدا کو گواہ جان کر کہتے ہيں کہ ہميں پاکستان کا روشن مستبقل عزيز ہے اور يہي ہمارا مشن ہے۔ اس سے قطع نظر کراچي ميں غنڈہ گردي کا اصل ذمہ دار کون ہے آئيں ايم کيو ايم کي سياسي تاريخ کا جائزہ ليں اور يہ ديکھيں کہ ايم کيو ايم جن مقاصد کيلئے بنائي گئ تھي وہ پورے ہوئے کہ نہيں۔