الطاف حسین بھی آجکل کے ان سیاستدانوں میں شامل ہیں جو صرف گفتار کے غازی ہیں مگر کردار کے نہیں۔ جنگ اخبار میں الطاف حسین کا تازہ مضمون پڑھیے اور ان کی موجودہ سیاست کو دیکھیے آپ کو ان دونوں میں تضاد ہی نظر آئَے گا۔ ایک طرف الطاف حسین قومی اداروں کے ناسور کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اسی حکومت کا حصہ ہیں جو اس ناسور کو ختم نہیں کر رہا۔ ایک طرف وہ جاگیرداری نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہ موجودہ جاگیردار حکومت کا حصہ بنے بیٹھے ہیں۔ ایک طرف وہ جن مطالبات کے حق میں حکومت سے الگ ہوتے ہیں وہ مطالبات نہ مانے جانے کے باوجود دوبارہ حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ آج کل الطاف حسین جس طرح کی باتیں کر رہے ہیں وہ اپوزیشن پارٹی کے سربراہ کو کرنی چاہئیں ناں کہ حکومت میں شامل پارٹی کے سربراہ کو۔ دراصل یہ ان کا قصور نہیں ہے یہ موجودہ سیاسی روش اور عوامی بے حسی کا قصور ہے۔ مگر کب تک، کبھی تو عوام جاگے گی جو گفتار کے غازیوں پر کردار کے غازیوں کو ترجیح دے گی۔