کراچی اور حیدرآباد تک محدود مقامی لیڈر جو عرصہ دراز سے ملک کے باہر بیٹھ کر ایم کیو ایم کی قیادت کر رہے ہیں انتہائی چالاک، خودغرض اور مطلبی سیاستدان ہیں۔ ان پر ہونے والی سختیوں سے انہوں نے یہی سبق سیکھا ہے کہ برے وقت پر گدھے کو بھی باپ بنا لو۔  بینظیر اور نواز شریف کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ان کی حکومتوں سے الگ ہونے کی جو غلطیاں کیں وہ دوبارہ نہیں دہرائیں۔ کیونکہ ان غلطیوں کی وجہ سے ان کی پارٹی کو بہت بری مار پڑی۔ اس کے بعد حکومت چاہے ڈکٹیٹر کی ہو یا ان کے دشمن کی انہوں نے حکومت میں رہنا ہی اپنے حق میں بہتر سمجھا۔

الطاف حسین نے بھٹو کی طرح عوامی لیڈر بننے کیلیے اپنی تقاریر کو جوشیلا بنانے کیلیے بہت بھونڈے طریقے اپنا رکھے ہیں۔ ان کی اگر تقاریر سنیں تو وہ سیاستدان کم اور ذاکر زیادہ لگتے ہیں۔ کبھی پنجابی میں بھڑکیں مار رہے ہوتے ہیں، کبھی گانا گا رہے ہوتے ہیں تو کبھی خواہ مخواہ چنگھاڑ رہے ہوتے ہیں۔ حیرانی تو یہ ہے کہ کراچی جیسے پڑھے لکھے لوگ ان کی دیوتا سے بھی بڑھ کر پوجا کرتے ہیں۔ وہ ایک دو تین اگر گن دیں تو مجمع ایسے خاموش ہو جاتا ہے جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔

الطاف حیسن ایک ڈکٹیٹر کی طرح اپنی سیاسی جماعت کے عرصہ سے سربراہ چلے آ رہے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ انہوں نے برطانیہ کی شہریت لی اور پاکستان نہ آنے کی قسم کھا لی۔ وہ بھی ضیاع کے مارشل لا کی پیداوار ہیں۔ ضیاالحق نے اس لیے ایم کیو ایم بنوائی تا کہ وہ کراچی سے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کا خاتمہ کر سکے۔ جس طرح ضیاع کے دور میں کلاشنکوف اور ہیروئین کے کلچر کو فروغ ملا اسی طرح ایم کیو ایم بنانے کے بعد انہوں نے کراچی کو روشنیوں کا شہر نہ رہنے دیا اور ایم کیو ایم کی وجہ سے جو تشدد کی لہر کراچی میں اٹھی اس سے اب تک پیچھا نہیں چھڑایا جا سکا۔ مشرف دور کے آخری دنوں میں اس کے اقتدار کو دوام بخشنے کیلیے الطاف حسین نے 21 مئی اور 12 اپریل جیسے پرتشدد اقتدامات اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔

ایم کیو ایم جو مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے شروع ہوئی ایک نظریاتی جماعت ہے جس نے اردو سپیکنگ طبقے کی نمائندگی کی۔ کراچی میں چونکہ جماعت اسلامی جیسی نظریاتی جماعت کا کافی عرصے تک کنٹرول رہا اسلیے جماعت کی ساری تنظیمی خوبیاں ایم کیو ایم میں پائی جاتی ہیں۔ الطاف حسین کو چھوڑ کر ایم کیو ایم میں کچھ خوبیاں اسے باقی جماعتوں سے ممتاز بناتی ہیں۔ ایم کیو ایم کی تنظیم سازی کمال کی ہے۔ اس جماعت میں جاگیرداروں کی نمائندگی تو نہیں ہے مگر یہ جماعت جاگیرداروں کی حکومتوں میں شامل ہو کر انہیں کمرپشن کرنے کی کھلی چھٹی دیتی ہے۔

الطاف حسین کے قول و فعل میں بہت تضاد ہے۔ ایک طرف اگر وہ پاکستان کے بننے کو تاریخ کی فحش ترین غلطی قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف اسی پاکستان کے لوگوں کے مال پر پل رہے ہیں۔ ایک طرف وہ جاگیرداری نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں تو دوسری طرف وہ جاگیرداروں کی حکومتوں کے حلیف بن کر جاگیرداری نظام کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ عوام کو سڑکوں پر نکل کر عوامی انقلاب لانے پر اکساتے ہیں تو دوسری طرف وہ خود ملک واپسی کا سوچتے تک نہیں۔

الطاف حسین انتہائی غیرمحب وطن شخص ہیں جو غیروں کیلیے سب کچھ کرنے کیلیے ہروقت تیار بیٹھے رہتے ہیں اسلیے ہماری خواہش ہے کہ وہ کبھی اقتدار میں نہ آئیں۔