صحافیوں کا اسمبلی کے سامنے دھرنا رنگ لایا اور حکومت کو مجبورا تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینا پڑا۔ آج سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران ایسے انکشافات ہوئے جن سے یہی شک گزرتا ہے کہ سلیم شہزاد کو شہید کرنے میں خفیہ والوں کا ہاتھ ہے۔ اس شک کے  حق میں مندرجہ ذیل نقاط بہت اہم ہیں۔

سلیم شہزاد کے موبائل فون کا آخری پندرہ روز کا ریکارڈ غائب ہے

حکومت نے سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کیلیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا

سلیم شہزاد نے اغوا ہونے سے پہلے خفیہ ایجنسیوں کی دھکمیوں اور میل ملاقاتوں کا ذکر کیا تھا

نیوی کراچی کے دہشت گردی کے واقعے پر لکھنے کے بعد سلیم شہزاد اغوا ہوئے

سلیم شہزاد کی گاڑی صیح سلامت حالت میں برآمد ہوئی

سلیم شہزد کو گولی یا تیز دھارے آلے کی بجائے تشدد کر کے شہید کیا گیا

سلیم شہزاد نے اپنے دوست سے خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا

سلیم شہزاد کے قتل کی پولیس نے سنجیدگی سے تفتیش نہیں کی وگرنہ ان کی گاڑی سے کافی ثبوت اکٹھے کیے جا سکتے تھے

سلہم شہزاد کی شہادت کے بعد ان کے گھر والوں کو دھمکیاں دی گئیں

شلیم شہزاد کے قتل پر مقامی سیاسی جماعتوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی قتل کی تحقیقات کیلیے حکومت پر زور دیا

سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ بار کی صدر عاصمہ جیلانی نے کہا کہ سلیم شہزاد کے موبائل فون کا ریکارڈ کوئی طاقتور ادارہ ہی غائب کر سکتا ہے