اس وقت جتنے بھی سیاستدان سیاست میں ہیں وہ سب کے سب آزمائے جا چکے ہیں۔ ایم کیو ایم، اے این پی، مسلم لیگیں، پی پی پی، جمعیتیں سب حکومت کر چکے ہیں مگر ان کی وجہ سے ملک میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ ایم ایم اے سے عوام نے بہت ساری توقعات باندھی تھیں مگر ساری کی ساری خاک میں مل گئیں۔ اس وقت عوامی سطح پر صرف اور صرف ایک سیاستدان ہے جو آزمایا نہیں گیا اور وہ ہیں عمران خان۔ ان کا سیاسی ماضی ننانوے فیصد بے داغ ہے۔ یہ کامیاب کرکٹر اور فلاحی کارکن اپنے آپ کوثابت کر چکے ہیں۔ اب انہیں کامیاب سیاستدان ٹیسٹ کرنے کیلیے ایک دفعہ آزمانا ضروری ہو گیا ہے۔

عمران کے کردار پر جواعتراضات لگے وہ ان کے کرکٹ کے دور کے تھے یعنی ان کی عیاشیوں کے چرچے رہے۔ پھر انہوں نے ایک یہودی خاندان میں شادی کی جو ناکام ثابت ہوئی۔ اب پتہ نہیں جمائمہ ابھی بھی مسلمان ہے کہ نہیں مگر وہ ان کے بچوں کی بیرون ملک پرورش کر رہی ہے۔ عمران ابھی تک تو اپنی پارٹی میں جمہوریت لانے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ اپنی پارٹی کے شروع سے بلاشرکت غیر چیئرمین چلے آ رہے ہیں۔ ان کے  پاس مشہور لوگوں کی ٹیم نہیں ہے اور یہ بھی ان پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے مقابلے میں کسی بڑی شخصیت کو اپنی پارٹی میں ابھرنے ہی نہیں دے رہے۔

عمران خان ان تمام اعتراضات کے باوجود عوامی سطح پر اس وقت سب سے مقبول سیاست دان ہیں مگر ان کی مقبولیت انہیں اگلا انتخابات جیتنے میں مددگار ثابت  ہو گی یا نہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔ یاد رہے اس وقت عمران اسی مقام پر ہیں جس پر بھٹو تھے۔ انہوں نے بھی مغربی پاکستان میں انتخاب عام آدمیوں کی ٹیم سے جیتا تھا۔ اس وقت لوگ یہی کہا کرتے تھے کہ بھٹو اگر کسی کتے کو بھی امیدوار کھڑا کر دیں تو وہ جیت جائے گا۔ لیکن اب وہ حالات نہیں ہیں۔ اس وقت میڈیا عام نہیں تھا، غیرملکی مداخلت اتنی عام نہیں تھی اور لوگ معصوم تھے۔ اب حالات بدل چکے ہیں اور عمران کا بغیر کسی بڑی شخصیات کی سپورٹ کے انتخابات جیتنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔

ویسے ہم اس حق میں ہیں کہ موجودہ سیاسی قیادت میں اگر کوئی کم سے کم داغدار انسان ہے تو وہ عمران خان ہے اور انہیں ملک کی قیادت کا ایک موقع ضرور ملنا چاہیے تا کہ پتہ چل سکے جو وہ کہہ رہے ہیں وہ موقع ملنے پر کر کے بھی دکھا سکتے ہیں یا نہیں۔