اس بات سے تو کسی کو اختلاف نہیں کہ کراچی جل رہا ہے اور ہر کوئی یہ بھِی جانتا ہے کہ مہاجر اور پٹھان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ کراچی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی شہر میں حزب اختلاف کے ارکان کو نہیں مارا جا رہا بلکہ حکومت میں شامل پارٹیاں ایک دوسرے کے ارکان کو قتل کر رہی ہیں۔ یہی امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر حزب اختلاف کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہوتا تو ساری پولیس، رینجرز اور آرمی چند روز میں امن قائم کر چکی ہوتی۔ مگر جب حکومتی حلیف پارٹیاں ہی قتل و غارت میں شریک ہوں تو پھر پولیس اور رینجرز ایکشن لینے سے پہلے سو دفعہ سوچے گی۔

کراچی میں لگی آگ کو بجھانے کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے کراچی میں ہنگامی حالت کا اعلان اور حکومتی پارٹیوں کو وقتی طور پر شٹ اپ کرنے کی کال۔ کیونکہ ایم کیو ایم، اے این پی اور پی پی پی کے سربراہ کراچی میں امن کیلیے بالکل سنجیدہ نہیں ہیں۔ نہ لندن والی سرکار نے کراچی آنے کی ہمت کی ہے، نہ اسفندیار ولی خان منظرعام پر آئے ہیں اور نہ زرداری صاحب ایوان صدر سے باہر نکلے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ حزب اختلاف نے بھی کراچی کی بگڑتی صورتحال کو کیش کرانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ خودغرضوں کا ٹولہ کراچی کی آگ نہ بجھا کر ملک کی معاشی شہ رگ کو کاٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اگر کراچی کا ذرا بھی کسی کو احساس ہوتا تو الطاف بھائی اپنی خودساختہ جلاوطنی ترک کے کراچی آ چکے ہوتے، اسفندیار ولی خان اونٹ کی طرح آشیانے میں گردن چھپائے نہ بیٹھے ہوتے اور صدر زرداری ایوان صدر کی چار دیواری سے باہر نکل چکے ہوتے۔ مگر انہیں کیا کراچی جائے بھاڑ میں، صدر تو اپنی سالگرہ منائیں گے دبئی میں، الطاف بھائی لندن کی ٹھنڈی ہواوں کے مزے لوٹیں گے، نواز شریف خاندان سمیت عمرے پر سعودی عرب چلے جائیں گے، اسفند یار ولی چھپ چھپ کر دن میں کئی دفعہ روزہ افطار کریں گے۔ مر تو بیچارے وہ رہے ہیں جنہوں نے لندن والی سرکار کو تخت پر بٹھا رکھا ہے، زرداری کو ایوان صدر سونپ رکھا ہے، اسفندیار ولی کو پختونخواہ اور نواز شریف کو پنجاب دیا ہوا ہے۔ ان مرنے والوں کے لواحقین کو اگر اب بھی عقل نہ آئی تو اگلے انتخابات میں یہی قاتل دوبارہ کراچی کا امن تباہ کرنے کیلیے ایوانوں میں پہنچ جائیں گے۔