ہمارے بلاگر ساتھی یاسر جاپانی صاحب نے دی نیشن اخبار کا جو لنک اپنے تبصرے میں لگایا ہے اس کے مطابق ڈاکٹر عمران کا قتل ایم کیو ایم کے کارکنوں نے کیا۔ اس کا مطلب ہےکہ ہمارا شک ٹھیک نکلا کیونکہ جب ڈاکٹر عمران کا قتل ہوا وہ ایم کیو ایم سے کنارہ کشی کر چکے تھے اور ان کا قتل ہی ایم کیو ایم کی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈال سکتا تھا۔

ہمارے سسر جو پولیس میں ڈی ایس پی تھے ایک واقعہ سنایا کرتے ہیں کہ ایک آدمی کا قتل ہوا اور اس کا سب کچھ لوٹ لیا گیا۔ اس کے قتل پر اس کا سوتیلا بھائی دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ پولیس کو شک گزرا اور اس کو گرفتار کر لیا۔ اس نے بعد میں اقبال جرم کر لیا۔

یہی کچھ ایم کیو ایم نے ڈاکٹر عمران کے قتل پر کیا۔ ان کا جنازہ شان سے نکالا، پھر قل کرائے اور ان کی یاد میں جلسے کئے۔ ہمیں اسی وقت شک ہو گیا تھا کیونکہ حالات و واقعات یہی بتا رہے تھے کہ ڈاکٹر عمران کے قتل کا سب سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم کو ہوا اور اسی نے بعد میں ڈاکٹر عمران کے قتل کا سوگ منایا۔ اگر ایم کیو ایم حکومت میں شامل نہ ہوتی تو آج پولیس الطاف حسین کو ڈاکٹر عمران کے قتل کے جرم میں گرفتار کر چکی ہوتی۔ ابھی بھی کچھ بعید نہیں ہے کہ قاتلوں کے اقرار جرم پر لندن کی پولیس الطاف بھائی کو گرفتار کرلے کیونکہ وہاں نہ رشوت چلتی ہے اور نہ سفارش۔

ہم یاسر صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہی کہیں گے کہ تنقید کرنے والے غلیظ الفاظ سے نہ اپنی زبان کو گندہ کریں اور نہ پڑھنے والوں کو اپنے جرم میں شامل کریں۔ یاسر صاحب نے ہم پر تنقید کی اور ہم نے اپنی صفائی میں لکھ دیا۔ جب دوسرے لوگ گندی زبان استعمال کرتے ہیں تو پھر ہم ان کو جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ مگر غلیظ تبصروں کے مصنف پھر بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتے اور ہماری خاموشی پر بھی تنقید کرنے سے باز نہیں آتے۔ خدارا کچھ اپنے آپ کا بھی جائزہ لیجیے اور تنقید کرنی ہو تو مہذب طریقے سے کیجئے۔