اپنے تمیزدار بھائی نے ہمیں ایک نعرے سے روشناس کرایا جسے ہم اس سے پہلے اپنی “نعرے” والی پوسٹ میں بھی لکھ چکے ہیں۔ اس نعرے کی ضرورت اسلیے پیش آئی کہ چند روز قبل اسمبلی کے وقفہ سوالات میں سینٹ میں پاکستان حکومت نے بتایا تھا کہ جنرل صدر مشرف کے دور میں دو سو پچاسی عہدوں پر حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کو تعینات کیا گیا۔

ایوان بالا سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران محمد اعظم خان سواتی کے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بتایا کہ سنہ دو ہزار سے تاحال اکتالیس نان کیریئر ڈپلومیٹس تعینات کیے گئے ہیں جس میں اکتیس ریٹائرڈ فوجی افسر شامل ہیں۔

قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات میں بیلم حسنین کے سوال پر اسٹیبلشمینٹ ڈویژن کے پیش کردہ تحریر جواب میں بتایا گیا کہ مختلف وزارتوں اور ان سے منسلک کارپوریشنز یا نیم خود مختار اداروں میں دو سو چون اہم سویلین عہدوں پر فوجی افسران تعینات کیے گئے۔

حکومت نے اپنے تحریری جواب میں بتایا کہ انتیس حاضر سروس فوجی افسروں کو اپنے کوٹہ کے مطابق سول سروسز میں ضم کیا گیا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے بتایا کہ ایک سو سولہ حاضر سروس فوجی افسران کو ڈیپوٹیشن یا سیکنڈ مینٹ پر مختلف وزارتوں کے اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔

جبکہ حکومت کے مطابق تینوں مسلح افواج کے مختلف عہدوں سے ریٹائر ہونے والے ایک سو نو افسران کو مختلف وزارتوں میں کانٹریکٹ پر تعینات کیا گیا۔

حکومت کے مطابق مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اعلیٰ سول سروسز کے گریڈ سترہ کے عہدوں کے لیے دس فیصد کوٹہ حاضر سروس فوجی افسران کے لیے مختص ہے۔

ان عہدوں پر تعیناتی کے لیے نامزد فوجی افسران کا فیڈرل پبلک سروس کمیشن ٹیسٹ لیتا ہے اور انہیں سویلین عہدوں پر مستقل تعینات کرتا ہے۔

حکومتی جواب میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کا نو وزارتوں میں دس فیصد کوٹہ ہے اور اس پر تعیناتی کے لیے ڈیفنس سروس آفیسرز سلیکشن بورڈ سفارش کرتا ہے۔

حکومتی جواب میں کانٹریکٹ پر تعینات ایک سو نو فوجی افسران اور ڈیپوٹیشن اور سیکنڈمنٹ پر تعینات ایک سو سولہ فوجی افسران کے بارے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کا کوئی کوٹہ ہے یا کہ صوابدیدی اختیار کے تحت انہیں مقرر کیا گیا ہے۔

اہم سویلین عہدوں پر تعیناتی کے بارے میں متعلقہ اداروں کے کیریئر سول افسران کو سخت تحفظات ہیں لیکن وہ اس بارے میں آن دی ریکارڈ کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں۔

اسی وجہ سے کسی نے خوبصورت نعرہ ایجاد کیا ہے

“پاکستان دیاں موجاں ای موجاں

جدھر ویکھو فوجاں ای فوجاں”

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری فوج کے افسران کی اکثریت میٹرک، ایف اے یا ایف ایس سی تک تعلیم رکھتی ہے۔ اس کے بعد ان کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے جو زیادہ تر افسروں کی ہاں میں ہاں ملانے اور اپنے ماتحتوں کو جائز ناجائز آرڈرز دینے پر مشتمل ہوتا ہے۔ کم ہی افسران ہوتے ہیں جو ریٹائر ہونے سے قبل اپنی تعلیم اپ گریڈ کرتے ہیں اور پھر کسی عہدے کیلیے اہل قرار پاتے ہیں۔

اب آپ سوچیں ایک ایف اے پاس فوجی جنرل کو یونیورسٹی کا چانسلر بنا دیا جائے تو وہ یونیورسٹی کا صرف بیڑہ ہی غرق نہیں کرے گا بلکہ پی ایچ ڈی پروفیسروںکی بات بات پر ہتک کرکے ان کا بھی مورال ڈاؤن کردے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یونیورسٹی کا چانسلر تجربہ کار پڑھا لکھا پروفیسر ہوتا جس نے ساری عمر یونیورسٹی میں گزاری ہوتی۔ لیکن فوجی آمر کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ اس سے یونیورسٹی کا معیار گرے گا بلکہ اسے اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ فوجی چانسلر یونیورسٹی میں ڈسپلن رکھے گا تاکہ طالبعلموں میں سیاسی شعور بیدار نہ ہونے پائے اور انہیں جب چاہے گائے بھینسوں کی طرح ہانک دیا جائے۔

یہی صورتحال دوسرے شعبوں کی بھی ہے۔ آپ اگر کسی ریٹائرڈ جنرل کو کسی کیریر ڈپلومیٹ کی جگہ پر سفیر لگا دیں گے تو وہ صرف جنرل صاحب کی حکومت کے گن ہی گاتا رہے گا۔ نہ اس کی سفارتی سرگرمیوں سے ملک کو مالی فائدہ ہوگا اور نہ ہی سیاسی۔

اسی طرح اگر آپ کسی بھی کارخانے کا سربراہ فوجی کو بنا دیں گے تو اسے کیا پتہ ہوگا کہ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کیا ہوتی ہے۔ وہ تو دن رات حکم چلاتا نظر آئے گا۔ ہاں اس کی موجودگی میں کارخانے کی صفائی کا نظام اس قدر کمال کا ہوگا کہ ہر فالتو چیز اٹھا کر بیچ دی جائے گی اور کارخانے میں صرف گھاس، پھول اور پودے ہی نظر آئیں گے۔

واپڈا کو فوج کے حوالے کرنے کا انجام تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ نواز شریف نے کسی مصلحت کے تحت فوج کو اس لیے واپٹا میں گھسایا کہ شاید بجلی کی چوری رک جائے۔ بجلی کی چوری تو نہ کم ہوئی،  البتہ بجلی کی پیداوار ضرور کم ہوگئی۔ اب یہ صورتحال ہے کہ بھٹو دور کی طرح لوگوں کو راشن ڈپو کی طرز پر بجلی مل رہی ہے۔ ہمیں تو یہی خدشہ ہے کہ اگر موجودہ صورتحال ایک دو سال اسی طرح رہی تو ہم بناں امریکی بمباری کے پتھر کے زمانے کی طرف لوٹ جائیں گے۔

اب بھی وقت ہے حکومت میرٹ پر بھرتیاں کرکے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے۔ ریٹائرڈ فوجی تو اپنی نوکری کے دوران ہی اتنا کچھ کما لیتے ہیں اور پھر ریٹائر منٹ پر جو انہیں مربوں کے حساب سے زمین ملتی ہے انہیں نوکری کی تو ضرورت ہی نہیں رہتی۔ پھر بھی نہ جانے کیوں ہماری افسری کی حوس کم نہیں پڑتی۔ نہ جانے کب ہم اپنی ذات سے اوپر سوچنا شروع کریں گے اور کب” سب سے پہلے میں” کی بجائے” سب سے پہلے پاکستان” کے نعرے پر عمل کریں گے۔