کراچی میں بارہ مئی کو ہونے والے مقابلے میں کئی ناانصافیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ اگر ان ناانصافیوں کا ایک ایک کرکے تجزیہ کیا جائے تو ایم کیو ایم کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے اور لگتا یہی ہے کہ ایم کیو ایم اس دوڑ میں جیت جائے گی۔

مندرجہ ذیل ناانصافیاں اس بات کا کھلا ثوبت ہیں کہ حکومت  اور اس کے حواری چیف جسٹس کی ریلی ناکام بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

  1. سب سے بڑی ناانصافی ایم کیو ایم اور حکومت نے اس دن کراچی میں ریلی کا اعلان کرکے کی ہے۔ ان کو پتہ بھی تھا کہ بارہ مئی کو چیف جسٹس کراچی آرہے ہیں اور ان کا استقبال پنجاب کی طرح والہانہ کیا جائے گا جو حکومت کو منظور نہیں ہے۔۔ ایم کیو ایم اگر چاہتی تو اپنی ریلی بارہ مئی سے ایک دن قبل یا ایک دن بعد میں رکھ سکتی تھی۔ مگر ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا گیا،  اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک چیف جسٹس کی ریلی کو ناکام بنایا جائے اور دوسرے تصادم کی صورت میں ایمرجینسی کے نفاذ کا موقع فراہم کیا جائے۔
  2. کراچی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں سے صرف چیف جسٹس کے حامی وکلا اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکین کو گرفتار کیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف ایم کیو ایم کے کسی بھی کارکن کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
  3. سندھ میں دفعہ 144 کا اطلاق صرف حزب اختلاف کے استقبالی کیمپوں اور دوسری سرگرمیوں پر ہورہا ہے۔ ایک طرف حزب اختلاف کے استقبالی کیمپ اکھاڑ دیے گئے ہیں جبکہ دوسری طرف ایم کیو ایم کے سٹیج سجائے جارہے ہیں۔ 
  4. حکومت نے سیکیورٹی کے نام پر ایرپورٹ کے ارد گرد کا بیشتر علاقہ رینجرز کی مدد سے  سیکورٹی کےنام پرسیل کردیا ہے تاکہ لوگ چیف جسٹس کا استقبال کرنے کیلیے ایرپورٹ نہ آسکیں۔ لاہور کی ریلی کے بعد حکومت کو پتہ چل جانا چاہیے تھا کہ چیف جسٹس کے استقبال کیلیے آنے والے لوگ پرامن ہیں اور انہوں نے لاکھوں کے مجعے کے باوجود کوئی گڑ بڑ نہیں کی۔
  5. حکومت نے ایرپورٹ کی طرف جانے والی سڑک شاہراہ فیصل بھی بند کردی ہے اور سندھ ہائی کورٹ کے علاقے کو بھی رکاوٹیں کھڑی کرکے سیل کردیا ہے۔ ان تمام انتظامات کا صرف یہی مقصد ہے کہ لوگوں کو چیف جسٹس کے استقبال سے روکا جائے۔

اگر ان تمام پابندیوں کی وجہ سے عوام کو چیف جسٹس کا استقبال نہیں کرنے دیا جاتا اور وہ غصے میں بپھر کر ہنگامہ آرائی شروع کردیتے ہیں تو اس شورش کا سارا الزام چیف جسٹس اور حزب اختلاف کی جماعتوں پر لگا دیا جائے گا اور ایمرجینسی کی وجہ دریافت کرلی جائے گی۔

چونکہ کراچی کے عوام باقی ملک کے مقابلے میں پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے ہیں اس لیے وہ حکومت کی اس سازش کو بھی ناکام بنادیں گے اور ہمیں امید ہے دونوں ریلیاں پرامن رہیں گی۔ 

اب دیکھنا یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور باقی حکومت ان ساری ناانصافیوں کو کس کھاتے میں ڈالتی ہے۔

اس طرح کے مقابلے جاگیردار اور وڈیرے کیا کرتے ہیں جب وہ اپنے مزارعوں اور ملازموں کو درختوں سے باندھ کر پیٹا کرتے ہیں۔ پولیس بھی ملزموں کی ٹھکائی کرنے سے پہلے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیتی ہے تاکہ وہ گلے نہ پڑ جائیں۔ اس طرح کے مقابلے امیر غریب یا طاقتور کمزور میں ہوتے دیکھے ہیں جب غریب پٹ رہا ہوتا ہے اور ہر تھپڑ پر ہار ماننے کی بجائے” اب کے مار کے دیکھ” کی رٹ لگائے رکھتا ہے۔ ایم کیو ایم نے اگر مقابلہ کرنا ہی تھا تو کرکٹ کے کھیل کی طرح کرتی۔ پہلے خود بیٹنگ کرتی یا مدمقابل کو بیٹنگ کرنے دیتی۔ تب میچ منصفانہ ہوتا اور جیت یا ہار کی صورت میں کسی پر بےایمانی کا الزام نہ لگتا۔