جیو کے بینر تلے “خدا کیلیے” والے شعیب منصور کی فلم “بول” کا آج کل بہت چرچہ ہے۔ بلکہ انڈیا میں بھی اسے بہت پسند کیا جا رہا ہے۔ سو ہم نے سوچا کیوں ناں اس فلم کو دیکھ کر اس کا تنقیدی جائزہ لیں۔ بول فلم انتہائی حساس موضوع پر بنائی گئی ہے۔ کہانی اچھی ہے مگر “خد کیلیے” والی فلم کی طرح اس میں بھی مذہب کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اگر مذہب کی تضحیق کا پہلو کہانی سے نکال دیا جائے تو کہانی بہت اچھی ہے۔ اچھا ہوتا شعیب منصور مذہب کو منفی انداز میں پیش کرنے سے اجتناب کرتے۔ مگر لگتا ہے جن لوگوں نے اس فلم میں سرمایہ کاری کی ہے ان کا مقصد ہی یہی تھا کہ جتنا ہو سکے لوگوں کے دلوں میں اسلام کی نفرت کا زہر آہستہ آہستہ بھرا جائے۔ لگتا ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

ایک حکیم کو مولوی بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے تھا۔ شعیب منصور اسے سکول ماسٹر بھی بنا سکتے تھے یا کوئی جاگیردار بنا دیتے۔ اب یہ تو اچھا نہیں لگتا کہ ایک طرف مسلمان نماز بھی پڑھ رہا ہو اور دوسری طرف وہ پہلے اپنے کھسرے بیٹے کو قتل کر دے، پھر سزا سے بچنے کیلیے مسجد کے فنڈ کی رقم تھانیدار کو رشوت میں دے دے اور پھر اپنی عزت بچانے کیلیے نہ صرف ہیرا منڈی میں قرآن پڑھانا شروع کر دے بلکہ بیٹی پیدا کر کے دینے کیلیے کنجری سے شادی بھی کر لے۔ اسے تب عقل آئے جب بچی پیدا ہو جائے مگر پھر اسے ذلیل و رسوا کر کے کنجرخانے سے باہر نکال دیا جائے۔ اس کے اکلوتے کھسرے بیٹے کیساتھ زیادتی کرنے والا حصہ کہانی میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔

اگر فلم کو فلم کے انداز سے دیکھا جائے تو فلم کے اداکاروں نے اپنے کرداروں سے انصاف کیا ہے۔ فلم کا اصل ہیرو گلوکار عاطف اسلم نہیں بلکہ حکیم یعنی منظر صہبائی ہے مگر اس کا گیٹ اپ بہت ہی بھونڈے طریقے سے کیا گیا ہے۔ تمام لڑکیوں نے اپنے کرداروں سے بہت حد تک انصاف کیا ہے۔ فلم کی موسیقی بہیت ہی بے جان ہے بلکہ کنسرٹ کا گانا بہت اچھا ہو سکتا تھا مگر لگتا ہے پروڈیوسر نے سارا زور صرف کہانی پر لگا دیا ہے۔ تھانیدار اور کنجر کا کردار بہت جاندار ہے۔ فلم کو اچھے طریقے سے فلمایا بھی نہیں گیا۔ اگر فلم بنانے والا چاہتا تو منظرنگاری کو اور بہتر بنا سکتا تھا۔

مذہب کی تنقید کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو فلم کے دس میں سے دو نمبر بھی نہیں بنتے۔ کہانی کو دس میں سے دس نمبر دیے جا سکتے ہیں۔ موسیقی کو دس میں سے تین نمبر اور فوٹوگرافی کو پانچ نمبر۔