وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک شہر میں جب دو سیاسی گروپ ایک ہی دن جلسے کرتے یا ریلی نکالتے ہیں تو وہی ہوتا ہے جو کراچی میں ہوا۔ دو متحارب گروپ آپس میں فائرنگ کرکے ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہے اور فوج اور پولیس دور کھڑی تماشہ دیکھتی رہی۔ حکومت دارلحکومت میں سیاسی جشن مناتی رہی اور کراچی میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔

اگر اس حادثے کو ایک غیرجانبدار آنکھ سے دیکھا جائے تو کراچی کے فسادات کا قصور وار سب سے پہلے حکوموت اور اس کی حامی جماعت ایم کیو ایم کو ٹھرایا جائے گا۔ ایک تو ایم کیو ایم نے چیف جسٹس کے دورے والے دن اپنی ریلی کا اعلان کرکے سب سے پہلی غلطی کی، دوسرے حکومت نے کراچی کے امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے کوئی خاص بندوبست نہیں کیا۔ اس سے پہلے اس طرح کے فسادات میں سیاسی کارکن پولیس اور فوج کی گولیوں سے شہید ہوتے رہے ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ متحارب سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے کارکنوں کا خون بےدردی سے بہایا۔ حکومت کو جب پتہ چلا کہ کراچی فسادات کی لپیٹ میں آچکا ہے تو پھر اسے اسلام آباد کی ریلی کینسل کرکے ساری توجہ کراچی کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کی طرف مرکوز کردینی چاہیے تھی۔ کراچی کے فسادات کو اس طرح عام سا دنگا فساد سمجھ لینا حکومت کی بے حسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

دوسری طرف حزب اجتلاف بھی اگر چاہتی یا پھر چیف جسٹس فسادات روکنا چاہتے تو وہ اپنا اپنا پروگرام ملتوی کرسکتے تھے۔ چیف جسٹس صاحب متحدہ کی ہٹ دھرمی کے بعد اپنا خطاب اگر ایک ہفتے کیلیے ملتوی کردیتے تو کراچی میں کل کے فسادات میں شہید ہونے والوں کی جانیں بچا سکتے تھے۔ حزب اختلاف اگر ہوش سے کام لیتی تو چیف جسٹس صاحب کو کراچی کا دورہ ملتوی کرنے پر مجبور کرسکتی تھی۔ جذب اختلاف اور چیف جسٹس کے اس اقدام کو پسپائی نہیں بلکہ کردار کی عظمت سمجھا جاتا اور ان کا قومی لیول پر مقام اور بلند ہوجاتا۔

فساد کو اگر روکنا ہو تو پھر دونوں فریقوں میں سے ایک کو جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا ہی پڑتا ہے۔ اگر دونوں فریق جوشیلے ہوں تو پھر لڑائی کا ٹلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ملک کے دانشوروں کی اکثریت کئی دن سے دونوں گروپوں سے درخواست کررہی تھی کہ وہ کراچی میں ایک ہی دن اپنی طاقت کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ سپریم کورٹ کے فل بینچ کی تشکیل کے بعد تو سب کا یہی خیال تھا کہ اب حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو سیاسی طاقت کے مظاہروں سے ہاتھ روک لینا چاہئے اور معاملہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ دانشوروں کو دونوں فریقین نے بیوقوف سمجھا اور اپنی سیاست چمکانے اور مخالف کو دبانے کا نادر موقع گنوانے کی کسی میں اخلاقی جرات پیدا نہ ہوئی۔ نذیر ناجی کی یہ بات حرف بحرف درست ثابت ہوئی کہ اب کی بار اگر تحریک چلی تونہ لاٹھیاں برسیں گی اور نہ اینٹیں، بلکہ گولیاں چلیں گی۔ کیونکہ اب دہشت گردی کی وجہ سے ہر گروپ کے پاس اسلحہ ہے اور مخالف گروپ گولی چلانےسے گریز نہیں کریں گی۔ یہی کچھ آج کراچی میں ہوا۔

کراچی میں جو پینتیس افراد شہید ہوئے ہیں وہ بیچارے غریب تھے مگر ان کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو اپنی اپنی سیاست چمکانے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں کہ اگر کوئی شہری یتیم ہورہا یا کوئی عورت بیوہ ہو رہی ہے۔ غریب جائیں بھاڑ میں، سیاستدانوں کو تو اپنی سیٹ پکی کرنی ہے بس ،چاہے اسکیلیے سو پاکستانی مریں یا ہزار۔

اب بھی وقت ہے حکومت اور حزب اختلاف دونوں عقل سے کام لیتے ہوئے کراچی کے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں۔ اپنی اپنی خود غرضیوں کو پس پشت ڈالیں اور سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کو حقیقی شکل دیں۔