عموماً عوام کے مزاج کو جاننے کیلیے جو سب سے اہم طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ سروے ہے۔ اگر کسی کمپنی نے اپنی نئ دریافت پر کام کرنا ہو یا پھر اسے مارکیٹ میں متعارف کرانا ہو تو اس پروجیکٹ کی ابتدا سروے سے کی جاتی ہے۔ اس سروے سے عام پبلک کی اس پروڈکٹ کے بارے میں رائے دریافت کی جاتی ہے اور پھر اس رائے پر انحصار کرتے ہوئے وہ پروڈکٹ تیار کی جاتی ہے۔

اسی طرح عام انتخابات سے پہلے میڈیا والے متواتر سروے کرکے پبلک کے موڈ کا اندازہ لگاتے رہے ہیں۔ اکثر اوقات انتخابات کے نتائج انی سروے کے مطابق نکلتے ہیں۔

ہم نے بھی سروے کو اپنے بلاگ پر متعارف کرایا ہوا ہے اور اپنے قارئین کی آرا سے اس طرح آگاہی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ جب چیف جسٹس کو جنرل صدر مشرف نے ریفرنس میں پھنسا کر زبردستی گھر بھیج دیا اور اس کے بعد جو بحران پیدا ہوا،  ہم نے اس بارے میں سروے کرنے کا ارادہ کیا۔ سروے میں ہم نے پوچھا کہ کیا جنرل صدر مشرف موجودہ بحران پر قابو پا لیں گے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا اور اس دوران کبھی بحران زور پکڑ لیتا اور کبھی ٹھنڈا پر جاتا، لوگوں کی رائے بھی ساتھ ساتھ بدلتی رہی۔ آخر میں لوگوں کی جنرل صدر مشرف کے بارے میں رائے ففٹی ففٹی تھی۔ لیکن جونہی ۱۲ مئی کو کراچی کے حالات نے پلٹا کھایا، لوگوں کی رائے بھی بدل گئ۔ اب تک کے سروے کے مطابق اب ساٹھ فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ جنرل صدر مشرف اس بحران پر قابو نہیں پاسکیں گے اور اڑتیس فیصد کی رائے ہے کہ وہ قابو پالیں گے جبکہ دو فیصد کو معلوم نہیں ہے۔ امید ہے حکومت اس سروے کی روشنی میں اپنا قبلہ درست کرنے کی کوشش کا آخری موقع ضائع نہیں کرے گی۔

ہمارا میڈیا جو دن بدن حالات حاصرہ کو عوام تک پہنچانے کا چیمپین بنتا جارہا ہے ابھی تک سروے کے ہتھیار کو موثر طور پر استعمال نہیں کرپایا۔ ابھی بہت اچھا وقت تھا کہ لوگوں سے اس بحران پر رائے لی جاتی۔ خصوصی طور پر کراچی کے حالات پر پوچھا جاسکتا تھا کہ اس کا کون ذمہ دار ہے۔ کم از کم ہم تو یہ سروے آج سے اپنے بلاگ پر شروع کررہے ہیں۔ اب دیکھیں عوام کیا فیصلہ دیتے ہیں۔ یہ سروے ہماے بلاگ کی سائڈ بار پر تھوڑا نیچے کرکے ہے۔

اسی طرح جنرل صدر مشرف کی مقبولیت کے بارے میں سروے ہوسکتا تھا، بجلی کے بحران پر عوامی رائے لی جاسکتی تھی، حکومت جو اقتصادی ترقی کا واویلا کرتے نہیں تھکتی اس پر عام لوگوں سے پوچھا جاسکتا تھا کہ کیا ان کے حالات جنرل صدر مشرف کی اقتصادی پالیسیوں سے بہتر ہوئے کہ نہیں، تعلیمی پالیسی اور جامعہ حفصہ کا بحران سروے کے لیے اچھے موضوع تھے۔

ہمیں امید ہے کہ ہمارا میڈیا سروے جیسے اہم ہتھیار کی طرف ضرور دھیان دے گا اور عوامی رائے عامہ کے موڈ سے حکومت سمیت سب کو آگاہ ہونے کا موقع فراہم کرے گا۔ ہوسکتا ہے اس عوامی رائے کی بنا پر حکومت اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرلے یا حزب اختلاف ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی کشتی کے چپوؤں کو سیدھا کرلے۔