شیخ اختر اپنے گاؤں سے شہر منتقل ہوا تو ہمارے محلے میں اس نے گھر لے لیا۔ اس وقت جب ہم سب دوست سکول کالج میں پڑھتے تھے وہ شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ تھا۔ اس نے کسی طرح ہم میں ایک دو دوستوں کیساتھ دوستی پیدا کرلی اور ہمارے غازی ہاکی کلب میں ہاکی کھیلنی شروع کردی۔  وہ آرمی میں ملازم تھا اور اس کی ڈیوٹی راشن ڈپو پر لگی ہوئی تھی، اس لیے اسے روپوں پیسوں کی کمی نہیں تھی۔ اس نے ان دنوں ایک پرانا ویسپا بھی خرید لیا جس پر ہم سب نے موٹرسائیکل ڈرائیونگ سیکھ لی۔ اس نے ہمارے کلب کو اپنی آرمی کی ٹیم کیساتھ متعارف کروایا اور ہم نے کئ میچ کھیلے۔ پھر اس کی پوسٹنگ مری ہوگئ اور ہمیں مری کی سیر کی دعوت دی۔ ہمیں مری کی سیر کے دوران اس نے گورنمنٹ گیسٹ ہاؤس کی سیر بھی کروائی اور وہ جگہ بھی دکھائی جہاں بھٹو کو جنرل ضیا نے قید رکھا تھا۔ اختر میں دنیا جہان کی خوبیاں تھی مگر ان سب خوبیوں پر بھاری اس کی ایک برائی تھی جس کی وجہ سے وہ بدنام ہوا۔ اس کو اپنی عمر سے کم عمر لڑکوں کیساتھ دوستی کا بہت شوق تھا اور وہ انہیں اپنے ساتھ لگائے رکھتا تھا۔ کبھی کبھی تو وہ اپنے کم عمر دوستوں کو سیر کرانے آرمی کی بیرکوں میں بھی لے جاتا تھا۔

وقت اتنی تیزی سے گزرا کہ ہم جب یورپ آگئے تو اختر بھی آرمی سے فارغ ہوکر یورپ آگیا۔ ہم نے پہلے اسے اپنے گھر رکھا۔ دراصل اس وقت ہم پانچ دوست ایک کرائے کے گھر میں اکٹھے رہا کرتے تھے اور ہم نے آپس میں یہ معاہدہ کررکھا تھا کہ جو بھی مہمان ہمارے گھر آئے گا وہ تب تک ہمارے پاس فری رہے گا جب تک اسے نوکری نہیں مل جاتی۔ اختر ہمارے پاس دو ماہ رہا، اس دوران ہم نے پرانی دوستی اور احسان مندی کے بدلے اسے جیب خرچ بھی دیا۔ اسے جونہی ایک کارواش پر نوکری ملی وہ نوکری کے قریب دوسرے پاکستانیوں کے پاس منتقل ہوگیا۔ اس دوران ہم نے ایک گروسری سٹور لے لیا اور اختر نے ہمارے سٹور سے ادھار لینا شروع کردیا۔

اختر اپنی پرانی عادت سے باز نہ آیا اور اس نے ایک طلاق یافتہ عورت سے ناجائز تعلقات استوار کرلیے اور شراب بھی پینی شروع کردی۔ 

 ایک دن پتہ چلا کہ اس نے دوسرے ملک جاکر سیاسی پناہ لے لی ہے۔ وہ نہ ہی ہمیں بتا کرگیا اور نہ ہی اس نے ادھار چکایا۔ جب اس کا کیس منظور نہ ہوا تو اس نے نام بدل کر دوبارہ کیس کردیا۔ کرنا خدا کا کرنا یہ ہوا کہ فنگر پرنٹوں کی وجہ سے حکومت کو اس کے نام بدل کر کیس جمع کرانے کا پتہ چل گیا اور انہوں نے بہانے سے اسے بلا کر جیل بھیج دیا۔

ہم لوگوں کا ایک جاننے والا اس ملک میں رہتا تھا۔ اس نے اسے جیل میں ملاقات کیلیے بلایا اور اسے بتایا یہ حکومت اسے ملک بدر کررہی ہے۔ اس نے اسے اس کا ذاتی سامان اس تک پہنچانے کی درخواست کی۔ ساتھ ہی اس نے اسے کہا کہ اسے پانچ سو ڈالر کی ضرورت ہے اور اس سے پانچ سو ڈالر لے کر اسے چیک دے دیا کہ وہ کیش کرالے۔ دوست نے اسے اس کا سامان حوالے کیا اور وہ ملک بدر ہوگیا۔ بعد میں اس کا دیا ہوا چیک بھی کیش نہ ہوا۔

ایک دوسال اس نے پاکستان میں لوگوں کو باہر بھیجنے کے جھانسے دے کر مال اکٹھا کیا اور دوبارہ یورپ آگیا۔ اس دفعہ جب اس نے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو کسی نے اسے لفٹ نہ کرائی۔  اب وہ پچھلے کئ سالوں سے دوبارہ کسی عورت کیساتھ رہ رہا ہے اور اس کی مدد سے لیگل ہونے کا انتظار کررہا ہے۔ اس کی عادتیں اب بھی نہیں بدلیں، وہی کماربازی اور شراب اس کے تن بدن میں رچ چکی ہے۔ اب تو سنا نے اس نے جوا بھی کھیلنا شروع کردیا ہے۔ وہ جو کچھ کماتا ہے انہی عیاشیوں کی نظر کردیتا ہے اور جو بچتا ہے اپنے بیوی بچوں کو بھیج دیتا ہے۔

قدرت کا انتقام دیکھیے، اس کی غیر موجودگی میں اس کا ایک لڑکا جو پیدائشی طور پر دماغی معذور تھا، شہر کی گلیوں میں آوارہ پھرتا رہتا ہے۔ اس کی بیٹی گھر سے ایسی بھاگی ہے کہ اس کی کسی کو خبر ہی نہیں ہے، اس کا دوسرا بیٹا لڑکیوں کے پیچھے بھرنے کی وجہ سے کئ دفعہ محلے داروں سے پٹ چکا ہے اور اس کی بیوی کے اپنے پڑوسی کیساتھ ناجائز تعلقات ہر ایک کی زبان پر ہیں۔