ہمارے حکمرانوں نے پہلے صدام کا انجام دیکھا اور اب قذافی کا انجام دیکھا ہے۔ کہاں یہ لوگ سونے کے محلوں میں رہنے وا؛ے، اپنے باڈی گارڈز میں گوری حسینائِں رکھنے والے، دولت کے انبار اکٹھے کرنے والے اور کہاں پھانسی لگا کر اور گھسیٹ گھسیٹ کر مارے جانے والے۔ ان دو ڈکٹیٹروں کے انجام سے ہمارے حکمرانوں نے یہ سبق تو سیکھ لیا ہو گا کہ ورلڈ پاورز کی حکم عدولی کا انجام کیا ہوتا ہے مگر انہوں نے یہ سبق نہیں سیکھا کہ جب ورلڈ پاورز کو ان کی ضرورت نہیں رہے گی تو پھر ان کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا۔ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں اربوں میں کھیلنے والے میاں برادران، چوہدری برادران، زرداری خاندان وغیرہ وغیرہ کو اور کتنی دولت چاہیے جو وہ اس کے حصول کیلیے عبرتناک انجام کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ وقت کب آئے گا جب وہ کہیں گے کہ بس اب دولت کافی بنا لی، اب کچھ عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دے کر اپنی آخرت بھی سنوار لیں۔

یہ بات سچ ہے کہ وہی ممالک فتح ہوتے ہیں جن کی عوام حملہ کرنے والوں کیساتھ جا ملتی ہے۔ اسی بات کو پلے باندھ کر ہمارے موجودہ اور مستقبل کے حکمرانوں کو عوام کے دل جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ جب ان پر بھی صدام اور قذافی جیسا برا وقت آنے لگے تو عوام ان کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہو جائیں۔ لیکن اس طرح کے حوصلے کیلیے عقل چاہیے جس سے ابھی تک ہمارے حکمران طبقے محروم ہیں۔ یہ بزدل ہیں، لالچی ہیں اور خودغرض ہیں۔ یہ نہ محب وطن ہیں اور نہ ہی رحم دل ہیں۔

اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ لوگوں کے سیاست میں آنے کیلیے چند شرائط لگا دی جائیں۔ ان کا ماضی صاف ہو اور ان کا رہن سہن انتہائی سادہ عام لوگوں جیسا ہو۔ ان کے کردار پر کوئی دھبا نہ ہو اور ذاتی زندگی جرائم سے پاک ہو۔ لیکن ایسے قوانین وہی بنائے گا جو خود کردار کا غازی ہو گا۔ کردار کے غازی کو حکمران چننے کیلیے عوام کو بدلنا ہو گا۔ عوام کو بدلنے کیلیے  تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس لیے اگر لوگ چاہتے ہیں کہ ملک میں تبدیلی آئے تو انہیں اپنی آنے والی نسل کی تربیت ایسی کرنی چاہیے کہ وہ جب ملک کی باگ ڈور سنبھالے تو اس میں یہ تمام خوبیاں موجود ہوں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔