پاکستان کا پڑھا لکھا گلوکار ابرارالحق جسے یہ زعم ہے کہ وہ ایچی سن کالج میں پڑھاتا رہا ہے اور جس نے غریبوں کیلیے ہسپتال بھی تعمیر کیا ہے جب ہٹ دھرمی پہ آتا ہے تو سفید جھوٹ بولتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں کرتا۔ اس کے ایک فحش گانے کا جب سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو وہ ایک ایسے سچ سے مکر گیا جو چھپائے بھی نہیں چھپ سکتا۔

قصہ کچھ اس طرح ہے کہ ابرارالحق کی نئ البم میں ایک گانا پروین کے نام سے ہے۔ اس گانے میں لچر پن کی انتہا کردی گئ ہے۔ اس گانےکی وجہ سے کچھ سرپھرے نوجوانوں نے پروین نامی لڑکیوں کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ ایک لڑکی نے تو تنگ آکر کالج چھوڑ دیا اور کالم نگار چوہدری جاوید کو خط لکھ کر اپنی  مصیبت سے آگاہ کیا۔ جاوید چوہدری نے اس لڑکی کا خط اپنے کالم میں چھاپ کر پاکستانیوں سے انصاف مانگا۔ سپریم کورٹ نے اس کالم کی بنا پر ابرارالحق کو نوٹس بھیج دیا۔ اب چہ جائیکہ ابرارالحق اپنے کئے پر نادم ہوتا اور اس گانے پر جو پروین نامی لڑکیوں کی چھیڑ بن گیا معذرت کرتا، وہ اصلیت سے صاف مکر گیا اور کہنے لگا کہ اس نے لفظ پروین نہیں بلکہ پرمین استعمال کیا ہے۔ اب ایک عام آدمی کو بھی پتہ ہے کہ پرمین نام ہی نہیں ہے اور دوسرے گانے کے بول اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اس نے پروین ہی کہا ہے۔

آپ خود یہاں پر گانا سنئے اور فیصلہ کیجئے کہ ابرارالحق نے لفظ پرمین استعمال کیا ہے یا پروین۔

Ne Parveen (Permeen) too bari namkeen by Abrar ul Haq

ابرارالحق جیسے سمجھدار آدمی کو اتنی تو عقل ہونی چاہیے تھی کہ جو جھوٹ وہ بول رہے ہیں اس کے پاؤں نہیں ہیں۔  ان کا گانا مارکیٹ میں آچکا ہے اور اسے سن کر ہرکوئی یہ گواہی دے سکتا ہے کہ اس گانے میں لفظ پروین استعمال ہوا ہے نہ کہ پرمین۔

اب میڈیا اس قدر طاقت پکڑ چکا ہے کہ کراچی کے فسادات کی ذمہ دار پارٹیاں ہزار بار تردید کریں مگر جو عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کو کیسے جھٹلا سکتی ہیں۔ اسی طرح اب آڈیو ٹیکنالوجی اتنی طاقتور ہوچکی ہے کہ وہ گلوکار کی سانس تک بھی ریکارڈ کرلیتی ہے۔ ہوسکتا ہے اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ابرار نے ثبوت کیلیے اس گانے کو بدل کر ایک نئی سی ڈی بنالی ہو جو وہ سپریم کورٹ میں بطور ثبوت پیش کرے گا مگر ان سی ڈیز کا کیا ہوگا جو مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ لازمی امر ہے کہ سپریم کورٹ ان سی ڈیز میں سے ایک ابرار کو سنائے گی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ابرار اس سی ڈی سے لاتعلقی کا اظہار کردے۔

ابرار کی ہٹ دھرمی ہماری قومی شناخت بنتی جارہی ہے۔ ہم ہر بات کرکے مکرنے کا کمال حاصل کرچکے ہیں۔ اسی لئے ہمارے نام “غلط بیانی” پڑتے جارہے ہیں۔ ابرار اگر چاہتا تو اس گانے پر معذرت کرکے اپنی عزت میں اضافہ کرسکتا تھا مگر ہوسکتا ہے چیف جسٹس کے ایشو کی طرح ابرار نے بھی اپنے پروین نامی گانے کے ایشو کو زندہ رکھنے کا پلان بنایا ہو تاکہ اس کی سی ڈی خوب بکے چاہے اسکیلیے اسے جھوٹا ہی مشہور کیوں نہ ہونا پڑے۔ ویسے ہمیں ابرار سے یہ امید نہیں تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ جو شخص اپنی زندگی کے قیمتی لمحات غریبوں کیلیے ہسپتال بنانے میں صرف کرسکتا ہے وہ سچائی کے دوالفاظ بول کر کئ غریب پروینوں کی داد رسی کرسکتا ہے، مگر ایسا نہیں ہوا۔