سنا ہوا ہے کہ حج کی قبولیت کی پہچان کسی حاجی مسلمان میں ایک اچھی عادت کا اضافہ ہے۔ پرانے وقتوں میں حاجی واپسی پر داڑھی رکھ لیا کرتے تھے اور لوگ ان کا نام ہی حاجی صاحب رکھ دیتے تھے۔ جس نے ایک سے زیادہ حج کیے ہوتے اسے الحاج کہا جاتا۔ مگر اب آبادی کے بڑھنے کیساتھ ساتھ حاجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اور معاشرے میں حاجی کی اہمیت بھی کم ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ حاجی کا حج کے بعد اپنے کردار کو نہ بدلنا ہے۔

اگر مذہبی کیساتھ ساتھ معاشرتی لحاظ سے دیکھا جائے تو حج معاشرے کی درستگی اور بھلائی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ حاجی حج پر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور دوبارہ گناہوں سے توبہ کرتا ہے مگر حقیقی زندگی میں ایسا نہیں ہو رہا۔ یہی وجہ ہے ہر سال پچیس لاکھ سے زیادہ حج کرنے والے مسلمان اپنے مذہب اور معاشرے کیلیے کوئی تعمیری کردار ادا نہیں کر رہے۔

حاجی اگر صرف اور صرف حج کے موقع پر امام کے خطبہ کے چند نقاط پر ہی عمل کر لیں اور ان کی تشہیر کا ذریعہ بنیں تو معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔ اتنے اچھے تعمیری خطبے کے باوجود اگر حاجی معاشرے کو سدھارنے میں ممدومعاون ثابت نہیں ہو رہے تو ان کے حج میں ضرور کوئی کمی رہ گئی ہے۔

امام صاحب نے حج کے خطبہ میں فرمایا

اسلامی حکومتوں کو اپنے عوام کیخلاف ہتھیار استعمال نہیں کرنے چاہئیں

خون خرابے کی بجائے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حال نکالا جائے

کاروباری افراد معاشرے کو سود سے پاک کرنے کیلیے کردار ادا کریں

تاجر مہنگائی اور گرانی کیخلاف کام کریں

مسلمان عورتیں جس آزادی کےنعرے کے پیچھے دوڑ رہی ہیں وہ گمراہی کا راستہ ہے

ہرمسلمان کا مال، جان اور دولت دوسرے مسلمان پر حرام ہے