وہی ہوا جس کا ڈر تھا مگر ہمیں شاید یہ شک تھا کہ حسین حقانی کے ہاتھ لمبے ہیں اور وہ بچ جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور حسین حقانی کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ بھٹو کو پھانسی اس وجہ سے ہوئی کہ ان پر اپنے سرکاری کارندوں کو قتل کا حکم دینے کا جرم حکومت نے ثابت کر دیا۔ یہی اصول اس کیس میں بھی اپنا کر اس مجرم کو سزا دینی چاہیے جو میمو کا اصل محرک تھا اور جسے اس سے فائدہ ہونا تھا۔

اب بھی ہمیں یقین ہے کہ دھول بیٹھ جانے کے بعد حسین حقانی کو اس سے بھی بڑی ذمہ داری سونپ دی جائے گی۔

جس طرح لوگ بینظیر کے قتل کا شک ذرداری پر کرتے ہیں کیونکہ بینظیر کی شہادت کا سب سے زیادہ فائدہ صدر زرداری کو ہی پہنچا، اسی طرح اس میمو کیس میں بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہونے جا رہا تھا۔ یہاں پر تو نامہ بر کی قربانی مانگ کر قصہ ختم کرنا کافی سمجھا گیا۔

حسین حقانی جیسے جہاندیدہ اور صدر زرداری جیسے کھیل باز نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ ابھی کل کی بات ہے بھٹو اور نواز شریف فوج پر قبضے کے چکر میں اپنی حکومتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لگتا ہے حسین حقانی اور صدر زرداری آقا کی وفاداری پر کچھ زیادہ انحصار کر رہے تھے تبھی تو ان سے یہ حماقت سر زد ہوئی۔ اگر صدر زرداری اس دفعہ بھی بچ گئے تو ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ اس کے بدلے میں بہت کچھ دینے کا وعدہ کر چکے ہوں گے۔ ان کے وعدے سے ملک کو کتنا نقصان پہنچے گا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔