آج سندھ ہائی کورٹ نے مہاجر قومی موومنٹ کے قائد آفاق احمد کی آخری مقدمے میں بھی ضمانت منظور کر لی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس کے بعد اگر کوئی اور مقدمہ کرنا ہے تو عدالت کو ابھی سے بتا دیا جائے تا کہ عدالت اس مقدمے میں بھِی آفاق احمد کی ضمانت منظور کر لے۔ یہ مقدمہ آفاق احمد پر دس سال قبل قائم ہوا تھا اور ان کے باقی ساتھیوں کو بری کیا جا چکا ہے مگر ان کی ضمانت بھی نہیں ہونے دی جا رہی تھی۔ اس سے قبل ان پر بننے والے درجنوں مقدمات میں ان کی باری باری ضمانت ہو چکی ہے۔

آفاق احمد سیاسی قیدی ہیں اور وہ بھی اس جماعت کے جو خود مظلوم ہونے کی دعویدار ہے۔ جب الطاف بھائی کی پارٹی مہاجر قومی موومنٹ  پر لسانی پارٹی کا الزام لگا تو انہوں نے اس کا نام بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ لیا۔ جس دھڑے کا الطاف بھائی سے اختلاف تھا اس نے ان سے علیحدگی اختیار کر کے مہاجر قومی موومنٹ میں ہی رہنا بہتر سمجھا۔ اس اختلاف کی سزا اس گروپ کو تب سے مل رہی ہے۔ آفاق احمد لمبے عرصے سے جیل میں بند ہیں اور ان کی ضمانت ہی نہیں ہونے دی جا رہی تھی۔ اگر ایک مقدمے میں ضمانت ہوتی تو ان کی دوسرے مقدمے میں گرفتاری ڈال دی جاتی۔ یہ کھیل عرصے سے کراچی جیسے پڑھے لکھے اور باشعور عوام کے شہر میں کھیلا جا رہا ہے۔

چہ جائیکہ الطاف بھائی اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے سبق سیکھ کر اپنے مخالفین کو معاف کر دیتے انہوں نے آفاق احمد کیساتھ وہی ظلم روا رکھا جس کا وہ خود شکار رہے ہیں۔ اسی رویے کی وجہ سے الطاف بھائی کی ایم کیو ایم پر ڈاکٹر فاروق سمیت ان کے پرانے ساتھیوں کے قتل کا شبہ کیا جتا ہے۔ اب بھی وقت ہے الطاف بھائی بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آفاق احمد کو معاف کر دیں اور اگر دوبارہ ان کو کسی مقدمے میں گرفتار کیا جائے تو وہ خود ان کی رہائی کیلیے کوشش کریں۔