جب آدمی پر مصیبت آتی ہے تو وہ پاگلوں والی حرکتیں شروع کردیتا ہے بشرطیکہ وہ ہوش و ہواس سے کام  لے۔ اس طرح کی کیفیت آپ کو اپنے اردگرد روزانہ نظر آتی ہوگی۔ سیاست میں جب سیاستدان یا مطلق العنان آدمی کی کرسی خطرے میں پڑتی ہے تو پھر وہ ایسی ایسی حرکتیں کرتا ہے کہ خدا کی موجودگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ یعنی دہریہ عبادت میں مشغول ہوجائے گا، روشن خیال مذہب کی باتیں شروع کردے گا اور ایک کمانڈر اور نڈر آدمی دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں بر بھی سر عامی معافی مانگنا شروع کردے گا۔

بوکھلاہٹ میں اوچھی حرکتوں کا استعمال جتنا ہم نے موجودہ حکومت کے دور میں دیکھا ہے پھلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

اس حکومت سے پہلے، بھٹو بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہوا۔ ہمیں معلوم ہے کہ بھٹو شراب پیتا تھااور اس نے بوکھلاہٹ میں سر عام اس بات کا اقرار بھی کیا۔  نماز روزے سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ لیکن جب جمہوری اتحاد کی تحریک نے اس کے اقتدار کو خطرے میں ڈالا، تو اس نے پہلے تو اسلامی دن کے طور پر جمعے کی چھٹی کا اعلان کردیا اور بعد میں اپنی محبوب چیز یعنی شراب پر بھی پابندی لگا دی۔ آخر میں اس کی عقل اتنی ماری گئ کہ وہ خود ہی جال میں پھنس گیا اور سولی چڑھ گیا۔

موجودہ حکومت روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے زعم میں اب تک ایسے ایسے کام کرچکی ہے جن کا اسلامی معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی مسلمانوں کو پکڑ کر غیروں کے ہاتھ بیچ کر انعام کی وصولی کا اقرار کرنا، کتوں کو بغل میں لے کر تصاویر بنوانا، افغانستان میں اپنی ہی پالیسیوں پر یوٹرن لینا، حدود آرڈینینس میں ترمیم کرنا، اپنے قومی لباس اور زبان پر یورپین لباس اور انگریزی کو ترجیح دینا۔

اسکے علاوہ نج کاری میں فراڈ، تعلیمی نظام میں تبدیلی کرنا، درآمدات پر ڈیوٹی ختم کرنا، محکموں میں نااہل ریٹائرڈ اور حاضر سروس لوگوں کو بھرتی کرنا، امپورٹڈ لوگوں کو وزارتیں دینا اور اس طرح کے بےشمار ایسے کام کرکے قومی مفاد پر یورپین مفاد کو ترجیح دینا اس حکومت کا معمول رہا ہے۔

لیکن جب سے ایک چیف نے دوسرے چیف کو چیلنج کیا ہے، بارہ مئی کی کراچی کی دہشت گردی کو طاقت کے مظاہرے کا نام دیا جارہا ہے۔ دہشت گردی کرنے والی جماعت کی حمایت میں اپنی عزت داؤ پر لگائی جارہی ہے۔

وردی کو اپنی کھال قرار دے کر اپنا ہی تمسخر اڑایا جارہا ہے ۔ اسی ایک فقرے نے کئ کالموں کا پیٹ بھرا ہے اور کئ شعرا کو شعر لکھنے پر اکسایا ہے۔ آج کی مشہور نظم “چاچا وردی لاہندا کیوں نہیں” اسی حرکت کا شاخسانہ ہے۔

صحافیوں کو بات بات پر ڈانٹنے والے جب میڈیا پر پولیس کا حملہ ہوتا ہے تو سر عام ان سے معافی مانگتے ہیں۔ میڈیا کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اب آزاد ٹی وی چینلز کی نشریات بند کرنے لگے ہیں۔

اسلامی احکامات کو دقیانوسی کہنے والے یہ اعلان کرتے ہیں کہ صرف وہی کعبے کے اندر جانے کا اعزاز رکھتے ہیں اور اگر نواز شریف میں اتنی طاقت ہے تو وہ کعبے کے اندر جاکر دکھائے۔ جو لوگ تعلیمی نظام سے اسلامی آیات کو حذف کررہے تھے اب امام کعبہ کو دعوت دیکر، ان کے پیچھے نماز پڑھنے اور ملاقاتوں کی تصاویر بنوا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ بھی مسلمان ہیں۔

اس مشکل وقت میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر ابھی پتہ نہیں کون کونسی اور بونگیاں ماری جائیں گی کہ جن کی ان جیسے خرد والوں سے توقع ہی نہیں ہوگی ۔