سولہ دسمبر پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دن ہے مگر آج اس کو معمول کا دن بنا دیا گیا ہے۔ خبرناک جیسے مزاحیہ پروگرام معمول کے مطابق چلتے رہے۔ نہ حکومت نے کوئی تقریب منعقد کی اور نہ کسی سیاسی جماعت نے سوگ منایا۔ قومی کی غیرت کو مارنے کیلیے اس طرح کے حربے استعمال ہوتے رہے ہیں یعنی ان کو ماضی کی پشیمانیوں پر غور کرنے ہی نہ دو۔ لوگ اپنے بزرگوں کی برسیاں مناتے ہیں، مزاروں پر عرس ہوتے ہیں مگر ملک کے ٹوٹنے کے سوگ میں ایک منٹ کی خاموشی تک اختیار نہیں کی جاتی۔

ڈھاکہ کی شکست میں چار اہم کردار تھے اور ہمارے خیال میں سب سے بڑا مجرم بھٹو تھا جس نے اقتدار کی خاطر ملک کو دو ٹکڑے کر دیا۔ اگر وہ اقتدار مجیب الرحمان کو دے دیتا تو ملک دو ٹکڑے نہ ہوتا۔ اگر یحی خان کو فوج اقتدار سے ہٹا کر کسی نیک آدمی کو ملک کا اقتدار سونپ دیتی تو ملک دو ٹکڑے نہ ہوتا۔ اگر مجیب الرحمان انڈیا کی جھولی میں نہ گرتا اور دو بڑی عالمی طاقتیں چاہتیں تو ملک دو ٹکڑے نہ ہوتا۔

بچے کھچے پاکستان کو سنبھالنے کا کارنامہ بھٹو کا گنوایا جاتا ہے مگر یہ سب اس کی خودغرضی تھی۔ بھٹو کا نوے ہزار فوجی چھڑوانے کا کارنامہ قوم کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ اس نے فوجیوں کے بدلے کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں نہ لے جانے کا معاہدہ کیا۔ تبھی اس کے بعد کشمیر کا مسئلہ کبھی اقوام متحدہ میں زیربحث نہیں آیا۔

قدرت کا انتقام دیکھیے جو بھی ملک کو توڑنے کی سازش میں شامل تھا وہ کتے کی موت مرا۔ بھٹو کو پھانسی لگا دیا گیا، مجیب الرحمان اور اندرا گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو ابھی بھی نہ شرم ہے اور نہ حیا۔ وہی کرتوت اور وہی بے غیرتی۔ صدرزرداری کو جب میمو سازش میں ملوث کیا گیا تو وہ اپنے حواس کھو بیٹھے اور دبئی کے ہسپتال میں جا داخل ہوئے۔