پاکستان کے حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ ان حالات کو کنٹرول کرنے والے مبینہ ملک کے کئ حکام ایک ساتھ پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد پاکستان کے وزیرخارجہ کو اپنے ساتھ واپس اپنے ملک لے گئے ہیں تاکہ پاکستان کیساتھ جاری سودے بازی کو حتمی شکل دی جاسکے۔ اس سے پہلے شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ ایک ملک کی وزارت خارجہ کے نائب اور پھر اس کے نائب نے پاکستان کے دورے کے دوران پاکستان کی آرمی کے ٹاپ کے جنرلوں کیساتھ بھی ملاقات کی ہو اوراپنے ملک کے سنٹرل کمانڈ کے سربراہ کو بھی معاونت کیلیے بلا لیا ہو۔

 ہمارا اشارہ جان نیگرو پونٹے، ان کے ڈپٹی ڈپٹی رچرڈ باؤچر اور سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل فالن کی طرف ہے جنہوں نے اس ہفتے پاکستان کا طوفانی دورہ کیا اور ہر اس سیاستدان اور فوجی جنرل سے ملاقات کی جو پاکستان کی حکومت میں ایک اہم ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔ پھر وہ واپس جاتے جاتے ہمارے وزیر خارجہ خورشید قصوری کو بھی ساتھ ہی لے گئے جو اب امریکہ میں وزارت خارجہ کے علاوہ فوجی حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

اس طرح کے طوفانی دوروں کی ظاہری طور پر کوئی خاص وجہ بیان نہیں کی گئ سوائے اس کے کہ انہیں معمول کے دورے قرار دیا گیا۔ ان دوروں کے دوران جنرل مشرف کی حکومت کی کھل کر حمایت کی گئ اور یہاں تک کہ دیا گیا کہ یہ جنرل مشرف پر منحصر ہے کہ وہ کب وردی اتارتے ہیں۔ اس حمایت کا محرک صرف یہی ہے کہ ہمارے آقاؤں کی نظر میں ایک ڈکٹیٹر کیساتھ ڈیل کرنا جمہوری حکومت کے مقابلے میں زیادہ آسان ہوتا ہے کیونکہ ڈکٹیٹر ہر دباؤ سے آزاد ہوتا ہے اور جمہوری حکومت پر عوام کا دباؤ ہوتا ہے۔ جمہوری حکومت عوام کی مرضی کیمطابق فیصلہ کرتی ہے اور موجودہ دور میں پاکستانی عوام کی اکثریت حکومت کے آقاؤں کے بارے میں منفی رائے رکھتی ہے جس سے آقا بخوبی آگاہ ہیں۔

عام پبلک کی رائے ان دوروں کے بارے میں کچھ مختلف ہے اور اس رائے کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے اسے ہم صرف قیاس آرائیاں ہی کہیں گے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ  حکام پاکستانی حکومت کی سپورٹ کرنے آئے تھے تاکہ موجودہ کرائسسز سے اپنے اتحادی کی حکومت کو نکالنے میں مدد دے سکیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ موجودہ کرائسسز کے اختتام کے بعد متوقع نئی قیادت کیساتھ جوڑ توڑ کرنے آئے تھے۔ کچھ کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کی ڈانواں ڈول حالت کی وجہ سے وہ اس حکومت کیساتھ ایسے معاہدے کرنے آئے تھے جو شاید نئی سیاسی حکومت کیساتھ نہ کیے جاسکیں۔ کچھ لوگ تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ تین اشخاص حکومت کے ساتھ اپنے موجودہ فوجی اڈوں کو قائم رکھنے کیلیے معاہدے کرنے آئے تھے۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو مجبور کیا جارہا ہے وہ اپنی شمالی سرحدوں پرمقامی شدت پسندوں کیخلاف اپنے ایکشن میں مزید شدت پیدا کرے۔  یعنی جتنے منہ اتنی باتیں لیکن ایک بات واضح ہے کو جو کچھ پردے پر دکھایا گیا وہ اتنا معمولی نہیں ہے جتنا ظاہر کیا گیا۔ اب اس پردہ داری کی وجہ کیا ہے اور کیا کچھ پاکستانی عوام سے چھپایا جارہا ہے یہ شاید ابھی معلوم نہ ہوسکے۔ پردے کے پیچھے کیا ہوا اس کا پتہ چلانے کیلیے شاید ہمیں کئی دھائیاں انتظار کرنا پڑے۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ ان تین شخصیات کے ہنگامی دورے کا وہی مقصد تھا جو انہوں نے بیان کیا یا پھر کچھ  اور تھا جو پاکستانی عوام سے چھپا کر رکھا گیا؟