روشنیوں کے شہر کراچی کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئ ہے کہ ایک کے بعد دوسری مصیبت اس پر نازل ہورہی ہے۔ ابھی بارہ مئی کا چالیسواں بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ پہلے کراچی کو گرمی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس کے بعد بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے شہریوں کو سڑکوں پر سونے کیلیے مجبور کردیا اور اب ایک قدرتی آفت نے کراچی کے لوگوں کو سوگوار کردیا ہے۔ اس ہفتے کے طوفان بادوباراں نے

کراچی کے کونے کونے میں تباہی پھیلا دی ہے۔ کچی آبادیوں کے مکانوں کی دیواریں اور چھتیں گرنے سے جہاں ہلاکتیں ہوئی ہیں وہیں شہری آبادی میں بل بورڈز، درخت اور بجلی کے کھمبے گرنے سے لوگ زخمی اور ہلاک ہوئے ہیں۔

موجودہ وفاقی اور مقامی حکومت جتنا چاہے اپنے آپ کو اس تباہی کی ذمہ داری سے نہیں بچا سکتی۔ ہم سب کو یاد ہے کہ کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں میں زلزلے کی بتاہی کے بعد ایک کرائسسز مینجمنٹ محکمہ تشکیل دیا گیا تھا اور اسی کی سرپرستی میں زلزلہ زدگان کی بحالی کا کام شروع ہوا تھا۔ پتہ نہیں اس محکمے نے اپنے آپ کو صرف زلزلہ زدگان کے علاقے تک کیوں محدود کرلیا۔ سونامی کی تباہی کے بعد بہت سارے ممالک نے قدرتی آفات سے بچنے کیلیے پیشگی اطلاع کے نظام متعارف کرائے مگر پاکستانی حکومت نے کیا کیا کسی کو معلوم نہیں۔ کرائسسز مینجمنٹ محکمہ اب تک کراچی کی تباہ کاریوں کو معمولی سمجھ کر ابھی تک متحرک کیوں نہیں ہوا ہمیں معلوم نہیں۔

چاہئے تو یہ تھا کہ اس آفت سے قبل صرف موسمی پیش گوئی ہی نہ کی جاتی بلکہ کراچی والوں کو اس کی سختی سے آگاہ کیا جاتا اور ان کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے میں مدد کی جاتی۔ کراچی میں ہنگامی حالات کا اعلان کردیا جاتا اور مقامی حکومت لوگوں کے جان و مال کو بچانے کیلیے خود کو وقف کردیتی۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ حکومت نے ابھی تک کراچی کو آفت زدہ قرار نہیں دیا اور نہ ہی جنرل صاحب نے رینجرز کو لوگوں کی مدد کیلیے بھیجا ہے۔

جب سے پاکستان میں موبائل فونوں کی بھرمار ہوئی ہے اور بین الاقوامی کمپنیوں کو ایک بہت بڑی مارکیٹ میسر آئی ہے، کراچی سمیت ملک کے سارے بڑے شہروں میں بل بورڈز کی بھرمار ہوگئ ہے۔ حکومت نے اس اشتہاری مہم کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔ نہ ہی ان بل بورڈز کی کنسٹرکشن کی کوالٹی کو چیک کیا اور نہ ہی ان بل بورڈز کیلیے محفوظ مقامات الاٹ کئے۔ اشتہاری کمپنیوں کو جہاں جگہ ملی سستے مٹیریل والے بل بورڈز آویزاں کردیے جو ساٹھ میل کی رفتار سے چلنے والی آندھی کا مقابلہ نہ کرسکے۔ ان بل بورڈز نے پتہ نہیں کتنے لوگوں کی جانیں لے لی ہیں۔ یہی بل بورڈز بجلی کی تاروں پر اور کھمبوں پر بھی گرے ہوں گے۔ اگر انہی بل بورڈز کی وجہ سے یورپ میں ایک بھی ہلاکت ہوئی ہوتی تو کمپنی پر کروڑوں کے ہرجانے کا دعویٰ ہوچکا ہوتا۔

خبروں میں یہ بھی آیا ہے ایک جماعت کے ارکان نے ایدھی ٹرسٹ کے لوگوں کو یرغمال بنالیا اور ان کو ایمبولینسوں سے لاشیں اتارنے نہیں دیں۔ چہ جائیکہ وہ جماعت کراچی کے اس اکیلے ٹرسٹ کی خدمات کا اعتراف کرتی، انہوں  نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ان کے خدمت خلق کے کام کو ہی کئ گھنٹے تک معطل کئے رکھا۔

اب بھی کچھ نہیں بگڑا اور اگر حکومت چاہے تو کم از کم موجودہ آفت میں شہریوں کی مدد کرنے کیساتھ ساتھ آنے والی آفات سے بھی کراچی کے باشندوں کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔ ہماری مندرجہ ذیل تجاویز سے حکومت پہلے سے ہی آگاہ ہوگی مگر پھر بھی ریکارڈ کیلیے یہاں درج کردیتے ہیں۔

کرائسسز مینجمنٹ کے محکمے کو فوج کی سرپرستی سے آزاد کرکے ایک سول ادارہ بنا کر اس کا سربراہ پڑھا لکھا اور تجربہ کار شخص مقرر کیا جائے۔ اگر امریکہ میں ایک شہر کی تباہ کاری سے کرائسسز مینجنٹ کا وزیر اپنی وزارت گنوا سکتا ہے تو پھر پاکستان میں اس کا فوجی سربراہ استعفیٰ کیوں نہیں دے سکتا۔

کراچی کو آفت زدہ قرار دے کر رینجرز کو شہر کا کنٹرول سونپ دیا جائے اور قدرتی آفات کے فنڈ سے کراچی کی مدد کی جائے

بجلی کی کمی کو ہنگامی بنیادوں پر دور کیا جائے چاہے اسکیلیے ایران یا بھارت سے ہی بجلی کیوں نہ خریدنی پڑے۔ حکومت اگلے دس سال کے توانائی کے اخراجات کا اندازہ لگائے اور مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے ابھی سے منصوبے شروع کردے۔

کراچی سمیت سندھ کے لوگوں کو کالا باغ کی افادیت سے دوبارہ آگاہ کیا جائے اور ایم کیو ایم سمیت سندھ کی دوسری لسانی جماعتوں کو کالاباغ ڈيم کی مخالفت ترکے کرنے کی طرف مائل کیا جائے۔

کمزور ڈھانچوں پر کھڑے بل بورڈز بناں کسی تاخیر کے اتار دیے جائیں اور مستقبل کیلے بل بورڈز کی کنسٹرکشن سے پہلے ان کو سیفٹی سرٹیفکیٹ جاری کئے جائیں۔

سندھ ہائی کورٹ بل بورڈز کے گرنے سے ہونے والی ہلاکتوں اور مالی نقصانات کا ازخود نوٹس لے اور ذمہ دار کمپنیوں سے کروڑوں روپے ہرجانہ وصول کرے۔

موسمی پیشگوئیوں کے نظام کو سنجیدگی سے لیا جائے اور جدید آلات درآمد کرکے اس کوفعال بنایا جائے۔

سندھ ہائی کورٹ ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس نقصان کے ذمہ دار محکموں کے سربراہوں کو عوامی کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھ گچھ کرے اور جرم ثابت ہونے پر ان کو قرار واقعی سزا دے۔

جس نے ایدھی ٹرسٹ کی ایمبولینسوں پر مسلح حملہ کرکے انہیں امدادی کاموں سے روکنے کی کوشش کی انہیں گرفتار کیا جائے اور ان کی جماعت پر پابندی لگا دی جائے۔