اسے آپ گفتگو کا انداز کہہ لیں یا فن، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم لوگ اپنی غلطی کو غلطی ماننے اور اس کے تدارک کی بجائے دوسروں کی غلطیوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ صرف ہم ہی نہیں ہیں جنہوں نے اس طرح کی غلطی کی ہے بلکہ دوسرے لوگ بھی اس سے پہلے ایسی ہی غلطیاں کرچکے ہیں۔ اس طرح کی غلطیوں کی مثالوں اور دلیلوں کے جواب میں ہم نے شاید ہی سنا ہو کہ میزبان نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا ہو۔ وہ بحث کو آگے بڑھانے کیلیے کوئی اور مسئلہ چھیڑ دیتے ہیں۔

ہم عام زندگی کی مثالوں سے اپنے اس نقطہ کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک صاحب نے اپنے کسی بہت ہی قریبی عزیز یا دوست کی غيبت کی اور جب ان کے دوست کو پتہ چلا اور انہوں نے گلہ کیا تواس کے جواب میں چہ جائیکہ وہ صاحب اپنی غلطی کا اعتراف کریں، وہ کہیں گے دوسرے صاحب نے بھی تمہارے بارے میں یہ کہا ہے یا پھر یہ کہیں گے کہ پہلے دوسرے صاحب نے تمہاری برائی شروع کی تھی۔ وہ یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ ان سے غلطی ہوگئی اور انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ دنیا میں محبوب کو رام کرنے کا اس سے بڑا نسخہ  ہے ہی نہیں کہ آپ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں اور اپنے محبوب سے معذرت کرلیں مگر شرط یہ ہے کہ یہ غلطی دہرائی نہ جائے۔ مگر ہم لوگ اکثر ایسا نہیں کرتے اور اپنی ضد کی وجہ سے اکثر اپنے پیارے دوستوں عزیزوں کی ناراضگی مول لے لیتے ہیں۔

ایک دفعہ ہماری ایک عزیزہ اکثر اپنی ساس سے اپنے دیور کی شکائتیں لگاتی رہتی تھیں اور ان کی ساس اپنے بیٹے کو ساری باتیں بتا دیا کرتی تھیں۔ ایک دن دیور صاحب نے اپنی بھابی سے پوچھ ہی لیا کہ کیا انہوں نے یہ بات ان کی ماں سے کہی ہے۔ بھابی کہنے لگی تمہاری ماں تو ہمیں لڑانا چاہتی ہیں اسلیے شکائتیں لگاتی ہیں۔ دیور نے پھر اپنا سوال دہرایا کہ کیا آپ نے میرں ماں سے یہ بات کی ہے۔ بھابی کہنے لگی میں تو ہوں ہی بری، یہ سب میرا ہی قصور ہے، تمہاری ماں تو حاجن ہے وہ تو کچھ بھی نہیں کرتی۔ دیور نے تیسری بار پھر پوچھا کیا آپ نے میری ماں سے یہ بات کی ہے۔ بھابی پھر آئیں بائیں شائیں کرنے لگی مگر دیور کی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی۔ دیور نے جب چوتھی بار اپنا سوال دہرایا تو بھابی کہنے لگی کہ ہاں میں کیوں جھوٹ بولوں میں نے کی ہے مگر تمہاری ماں نے بھی یہ یہ باتیں کی ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ اپنی غلطی کو چھپانے کی چار بار کوشش کی گئ۔ اگر بھابی دیور سے پہلی دفعہ ہی یہ کہ دیتی کہ اس نے یہ بات کی ہے اور آئندہ محتاط ہوجائے گی تو قصہ ختم ہوجاتا مگر یہ تب ہوتا جب اس عورت کے پاس اپنی غلطی تسلیم کرنے کیلیے بڑا جگرا ہوتا۔ ہماری نظر میں تو یہ صرف اور صرف عقل کی کمی ہے اور کچھ نہیں۔

آپ روزانہ ٹی وی پر ٹاک شو دیکھتے ہیں۔ جب میزبان شیخ رشید سے پوچھتا ہے کہ آپ سیاستدان ہونے کے باوجود باوردی صدر کی کیوں حمایت کررہے ہیں تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی سول وردی میں مارشل ایڈمنسٹریٹر تھا، جنرل ایوب اور جنرل ضیا کو انہی حزب اختلاف کی پارٹیوں نے باوردی صدر قبول کیا تھا۔ وہ دوسروں کی غلطیوں کی مثالیں دے کر اپنی غلطی کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر میزبان کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ ان سے کہ سکے کہ اس کا مطلب ہے کہ جس طرح حزب اختلاف والوں نے غلطی کی اسی طرح اب آپ بھی غلطی کررہے ہیں۔

ہمارے وزیر قانون وصی ظفر سے جب چیف جسٹس کی معطلی کی بابت پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے لوگوں نے بھی سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی غلطی کوئ نئ چیز نہیں ہے۔

اس حکومت کو وجود میں آئے آٹھ سال ہونے کو ہیں مگر اس کے وزیر مملکت اب بھی بجٹ پیش کرتے ہوئے اپنا موازنہ پچھلی حکومتوں کے بجٹوں سے کرتے رہے۔ انہیں یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ اس بجٹ کا موازنہ اپنے پچھلے بجٹوں سے کرسکیں۔ اس طرح وہ اپنے مخالفین کی غلطیوں کا تزکرہ کرکے اپنی غلطیوں کو جائز قرار دیتے رہے۔

ایک اور مذاکرے میں جب الطاف بھائی کی انڈیا کی ایک تقریب میں اس تقریر پر بات کی گئ جس میں انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان کا بننا ایک بہت بڑا بلنڈر تھا۔ اس کے جواب میں بابر غوری نے کہا کہ یہ ان کا ذاتی خیال تھا۔ جبکہ وزیر مذہبی امور اعجاز الحق نے بینظیر کی مثال دے کر کہا انہوں نے تو سرحدیں ختم کرنے کی بات کی تھی، انہوں نے سکھوں کی لسٹیں بھارت کو دی تھیںاور اس طرح لطاف بھائی کی غلطی کو دوسروں کی غلطی کے مقابلے میں چھوٹا ثابت کرکے بری الذمہ ہوگئے۔

آپ پی پی پی کی موجودہ حکومت سے ڈیل کی بابت پی پی پی والوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ ایم ایم اے بھی حکومت کی بی ٹیم کہلاتی ہے۔ اس طرح اپنی غلطی کو ایم ایم اے کی غلطی کا جواز بنا کر ٹھیک ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

یہ میزبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہمان سے یہ بات اگلوا کر رہے کہ یہ مانا کہ پچھلی حکومتوں نے بھی غلط کیا مگر آپ بھی مانیں کہ آپ بھی غلط کررہے ہیں۔ اس طرح کی غلطیوں کا اعتراف کرانے کیلیے میزبان کا ڈھیٹ ہونا بہت ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے میزبان کے پروگرام کی انتظامیہ انہیں ایسا کرنے سے روکتی ہو تاکہ خصوصی طور پرحکومتی نمائندوں اور عام طور پر سیاستدنوں کو  خجالت سے بچایا جا سکے۔

بہت کم لوگ ہیں جو خندہ پیشانی سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں اور اس غلطی کو دوبارہ دہرانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اکثر تو دوسروں کی غلطیوں کو جواز بنا کر اپنی غلطیوں کو درست تسلیم کرتے ہیں اور اس طرح اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کے مواقع گنوا بیٹھتے ہیں۔