جنرل مشرف کی حکومت نو گیارہ کے بعد کئ یوٹرن لے چکی ہے۔ ان میں افغان پالیسی، وردی اتارنے کی وعدہ خلافی، پمرا کے ترمیمی آرڈینینس کی مشروط واپسی، روشن خیالوں کے دوبارہ اللہ رسول کا نام لینے کی شروعات بہت مشہور ہیں۔ ان یوٹرنز میں ایک اور کا اصافہ ہونے والا ہے۔ کچھ عرصے سے مسلم لیگ ق کے صدرچوہدری شجاعت صاحب  نے اسمبلی کی رکنیت کیلیے گریجویٹ کی شرط کیخلاف مہم شروع کی ہوئی ہے۔ اب تو یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ حکومت سنجیدگی سے سوچ رہی ہے کہ اس شرط کو ختم کردیا جائے۔

جنرل مشرف نے جب گریجویٹ کی شرط رکھی تھی تو اس کے حق میں بے پناہ دلیلیں دی تھیں مگر اس شرط کے پیچھے ایک بہت بڑی چال تھی۔ جنرل مشرف صاحب نہیں چاہتے تھے کہ پرانے تجربہ کار سیاستدان اسمبلیوں میں پہنچ کر ان کیلیے درد سر بنیں۔ ان کا خیال تھا کہ تجربہ کار بوڑھے سیاستدانوں کی نسبت جوان سیاستدانوں سے معاملہ کرنا اسی طرح آسان ہوگا جس طرح امریکہ جمہوری حکومت کی بجائے ڈکٹیٹرحکومت کیساتھ معاملہ کرنا آسان سمجھتا ہے۔ جنرل صاحب اس مہم میں کامیاب بھی ہوئے اور انہوں نے بہت سارے گھاگ سیاستدانوں کو اسمبلیوں سے باہر کردیا اور ان کی اولادوں سے آسانی سے معاملات طے کرلیے۔

گریجویٹ کی شرط کا آرڈینینس جاری کرتے ہوئے جنرل صاحب نے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ اب اسمبلیوں میں انگوٹھا چھاپ نہیں پہنچیں گے اور ہماری اسمبلیاں پڑھے لکھے پاکستانیوں پر مشتمل ہوں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میںجنرل صاحب کو ان اسمبلیوں سے اب تک خطاب کرنے کی جرات نہیں ہوئی اور ان پڑھے لکھے ارکان پر مشتمل اسمبلیوں کو غیرمہذب اسمبلیاں قرار دیا۔ اب اگر جنرل صاحب یا ان کی حواری مسلم لیگ ق نے سادہ اکثریت سے اسمبلی سے گریجویٹ کی شرط ختم کرانے کا بل پاس کرالیا تو یہ ان کیلیے ایک بہت بڑا یوٹرن ہوگا۔ وہی جنرل مشرف جو تعلیم کی اہمیت بیان کرتے نہیں تھکتے تھے کس طرح اس بل پر دستخط کریں گے۔ اس بل پر دستخط کرتے ہوئے جنرل صاحب کا جواز سننے والا ہوگا۔

ہمارے خیال میں تو گریجویٹ کی شرط کو قائم رکھنا چاہئے۔ اس کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ جو لوگ پچھلے پانچ سال میں بی اے نہیں کرسکے انہیں قوم کی لیڈری اور وکالت کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ دوسرے اس شرط کے ختم ہونے سے عوام میں تعلیم کی اہمیت کم ہوجائے گی اور اس طرح بہت سارے نوجوان تعلیم حاصل کرنا وقت کا ضیاع سمجھیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان پانچ سالوں میں ہمارے موجودہ ارکان اپنی تعلیم میں اضافہ کرتے ناں کہ اپنے خاندان کے کم پڑھے لکھے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کردیں۔

اگر کوئی ہم سے پوچھے تو ہم گریجویٹ کی بجائے پرفیشنل تعلیم کے حق میں ہیں۔ اسمبلی کے ممبران کو اسی طرح ریفریشر کورسز کرانے چاہئیں جس طرح سرکاری ملازموں اور آرمی کو سٹاف کورسز کرائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسمبلی کے اجلاس سے پہلے ہر ممبر کیلیے پروجیکٹ مینجمنٹ اورفلاحی کاموں کی نہ صرف ٹریننگ دی جانی چاہیے، بلکہ وزارتوں کیلیے تو اس سے بھی کڑی شرط قانون میں ہونی چاہیے۔ ہر سیاستدان کو صرف وہی وزارت ملنی چاہیے جس کی فیلڈ میں اس کا تجربہ ہو۔ مثلا ریلوے کا وزیر صرف ایک انجینئر بننا چاہئے، قانون کا وزیر سابقہ جج یا سپریم کورٹ کا وکیل ہونا چاہئے، خزانہ کا وزیر تو سو فیصد کوئی پی ایچ ڈی ہونا چاہیے جس کا معاشیات اور مالیات میں وسیع تجربہ ہو۔ وزیر خزانہ غیرملک سے برآمد نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی وہ ورلڈ بنک یا آئی ایم ایف کا سابقہ یا موجودہ ملازم ہو۔ مذہبی امور کا وزیر کم ازکم جامعہ اظہر کی طرح کی یونیورسٹی کا گریجویٹ ہو یعنی عام قسم کا ملا نہ ہو۔ وزیر تعلیم کسی یونیورسٹی کا چانسلر ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

مندرجہ بالا شرائط کو پورا کرنے کیلیے ہمیں امریکی نظام کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ امریکی نظام میں صدر اپنے وزیر چنتا ہے جواکثر کانگریس اور سینٹ کے ممبر نہیں ہوتے۔ ان وزیروں کی پھر کانگریس سے منطوری لی جاتی ہے اور اس منظوری سے پہلے متعلقہ شعبے سے تعلق رکھنے والی کمیٹیاں ان وزیروں کا باقاعدہ انٹرویو لیتی ہیں اور یہ انٹرویو خفیہ نہیں ہوتا۔ اس انٹرویو میں وزارت کے امیدوار کا اگلا پچھلا ریکارڈ دیکھا جاتا ہے اور اس کی اہلیت جانچی جاتی ہے۔۔ کبھی کبھی تو امیدوار کو متعلقہ وزارت کیلیے نااہل قرار دے دیا جاتا ہے اور صدر کو اس کا نعم البدل چن کو کمیٹی کے روبرو پیش کرنا پڑتا ہے۔

ایک ہم ہیں کہ وزارت کیلیے کرپشن سے پاک جیسے سادہ سے اصول کی بھی پابندی نہیں کرتے بلکہ الٹا کرپٹ اشخاص کو پہلے نیب کا ڈراوا دے کر اپنے ساتھ ملاتے ہیں اور پھر اسے وزارت بھی دیتے ہیں تاکہ حکومت سے علیحدگی کا اس کے دل میں خیال بھی نہ آئے۔

اگر گریجویٹ کی شرط ختم کردی گئ تو ہمیں جنرل صاحب کے گریجویٹ کی شرط رکھنے کی دلیلوں پر جو شک تھا وہ یقین میں بدل جائے گا۔ اگر جنرل صاحب سمجھتے ہیں کہ ملکوں کی ترقی کیلیے تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے تو پھر گریجویٹ کی شرط کا بل اگر اسمبلی پاس بھی کردے تو پھر بھی وہ اس پر دستخط نہ کریں۔ اگر جنرل صاحب نے اس بل کو پاس ہونے دیا اور اس پر دستخط بھی کردیے تو پھر ہم سمجھیں گے کہ جنرل صاحب کی نیت میں پہلے سے ہی خرابی تھی۔