آج کل جنرل صدر مشرف عوامی جلسوں کی بجائے اپنی فوج اور اس کے ملحقہ اداروں سے خطاب پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ کبھی وہ کسی چھاؤنی میں خطاب کررہے ہوتے ہیں تو کبھی کسی دفاعی تعلیمی ادارے میں۔ لگتا ہے اب وہ عوام کی بجائے اپنی فوج پر زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں اور ان کے اس بدلتے رویے سے اشارے کچھ اچھے نہیں مل رہے۔ لیکن پھر بھی امید کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے ان سے نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔

 آج انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں میڈیا ورکشاپ کے ایگزیکٹو سیشن سے خطاب کے دوران جہاں موجودہ  سیاسی کرائسسز پر بات کی وہیں انہوں نے اگلے ہفتے قوم سے خطاب کے دوران اہم اعلانات کرنے کا وعدہ کیا۔

 آئیں اندازے لگائیں کہ جنرل صدر مشرف کے اہم اعلانات کس قسم کے ہوں گے۔  ضروری نہیں ہے کہ جو اندازے ہم لگارہے ہیں وہ سارے کے سارے ایک ساتھ ٹھیک ہوں۔ اگر ایک اندازہ بھی ٹھیک نکل آیا تو ہم بھی سکہ بند صحافیوں کی طرح ساری عمر اپنی اس دور اندیشی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں گے۔

 کسی نے پیر صاحب سے پوچھا کہ اس کے گھر بیٹا ہوگا یا بیٹی۔ پیر صاحب نے جواب دیا “لڑکا نہ لڑکی”۔ جب مریدوں نے اس کی وجہ پوچھی تو پیر صاحب کہنے لگے کہ اگر اس کے گھر بیٹا ہوا، تو میں کہوں گا کہ میں نے کہا تھا ناں کہ “لڑکا، نہ لڑکی” اور اگر بیٹی ہوئی تو میں کہوں گا کہ میں نے کہا تھا “لڑکا نہ، لڑکی” ایک مرید بولا اور اگر ہیجڑا ہوا تو؟ پیر صاحب کہنے لگے کہ میں نے اسی لیے کہا تھا “لڑکا نہ لڑکی” یعنی نہ لڑکا اور نہ لڑکی۔ اس پیر کی طرح ہمارا بھی تکا لگ ہی جائے گا۔

 ہمارے خیال میں جنرل صاحب مندرجہ ذیل اعلانات کریں گے۔

1۔ دس جولائی کو اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا

2۔ قومی اسمبلی توڑی جائے گی اور صوبائی اسمبلیاں صدر کے انتخاب کے بعد توڑی جائیں گی۔

3۔ موجودہ اسمبلیوں کی میعاد ایک سال مزید بڑھا دی جائے گی مگر عوام کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کرنے کیلیے ساتھ ہی چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس واپس لے لیا جائے گا۔

4۔ چیف جسٹس کو بحال کرنے کیساتھ ساتھ وزیر اعظم یا چند وزرا کو قربانی کا بکرا بنا کر برطرف کر دیں گے اور انتخابات کے بارے میں خاموشی اختیار کرلیں گے۔ جس سے یہی اندازہ ہوگا کہ وہ پہلے اپنا انتخاب کروائیں گے۔

5۔ رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کیلیے وہ امریکہ کیخلاف بات کرتے ہوئے شمالی علاقوں اور بلوچستان ميں جاری فوجی کاروائیاں روک دیں گے تاکہ لوگوں کو یقین دلا سکیں کہ وہ پاکستان کیساتھ کتنے مخلص ہیں اور وہ بھی مسلمان ہیں۔

6۔ جنرل صاحب اپنے خلاف عوامی غصے کو بھانپتے ہوئے ایمرجینسی نافذ کردیں گے۔

7۔ جنرل صاحب کا یہ خدشہ اگر یقین میں بدل چکا ہے کہ عوام ان کیخلاف ہوچکے ہیں تو وہ مارشل لا لگانے کا اعلان کردیں گے اور عوامی اصلاحات کی لمبی چوڑی فہرست پیش کرتے ہوئے بہت سارے کرپٹ سیاستدانوں کو گرفتار کرلیں گے تاکہ احتساب کے نعرے سے قوم کو ایک بار پھر متاثر کرسکیں۔

8۔ جنرل صاحب پمرا کے ترمیمی آرڈینینس کو منسوخ کرکے میڈیا کو خوش کرنے کی کوشش کریں گے۔[ یاد رہے کہ پمرا ترمیمی آرڈینینس کو واپس لینے کا وعدہ ہوا تھا مگر ابھی تک واپس نہیں لیا گیا تبھی تو چیف جسٹس کے پچھلے دوروں کو ٹی وی پر براہ راست نہیں دکھایا جارہا]

9۔ جنرل صاحب اپنی حکومت اپنے کسی دوسرے ساتھی کو سونپ کر فارغ ہوجائیں گے۔ ان کا دوسرا ساتھی ملک میں ایمرجینسی یا مارشل لا لگا دے گا۔

10۔ جنرل صاحب غریبوں کا دل جیتنے کیلیے موجودہ بجٹ سے بڑھ کر اپنی طرف سے مراعات کا اعلان کریں گے تاکہ اگلے انتخابات میں وہ ایک بااثر عوامی لیڈر کا کردار ادا کرسکیں [کاش ایسا ہو]۔

11۔ “۔چاچا وردی لاندا کیوں نئیں” اور “چاچا وردی پائی رکھ” کے شعرا کو پرائڈ آف پرفارمنس دینے کا اعلان کریں گے [ہا ہا ہا ہا ہا]

آئیں نیک گمان کریں کہ جنرل صاحب اسمبلیاں توڑ کر نگران حکومت قائم کرکے انتخابات کا اعلان کردیں گے اور چیف جسٹس کیخلاف ریفرینس واپس لیتے ہوئے ان کو بحال کردیں گے۔  یہی اعلان ان کے سارے اعلانوں کی ماں ہوگا اور ان کے اور ملک کے حق میں بہتر ہوگا۔ اس اعلان کے علاوہ باقی سارے اعلانات جنرل صاحب کیلیے مزید مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔