لال مسجد کی انتظامیہ کیخلاف آپریشن جاری ہے اور اب یہی لگ رہا ہے کہ یہ قصہ ایک آدھ دن میں ختم ہوجائے گا۔ اس محاذ آرائی سے تو یہی لگتا ہے کہ حکومت اب ہر حال میں اس قضیے کو ختم کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے اور اب اسکیلیے مزید انتظار کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔ اب بھی اگر افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے تو کئ  معصوم جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

لال مسجد کے کرائسز کے بارے میں لوگ دوگروپوں میں تقسیم ہوچکے تھے۔ ایک گروہ وہ تھا جو لال مسجد کی انتطامیہ کے مطالبات کو جائز سمجھ کر ان کی حمایت کررہا تھا۔ اس گروہ کی نظر میں ملک سے فحاشی کا خاتمہ اور دین اسلام کی ترویج کا لال مسجد کا ماٹو ٹھیک تھا اور انہی جذبات کی رو میں یہ گروہ یہ بھی بھول جاتا تھا کہ لال مسجد کی انتظامیہ نے ان نیک مقاصد کو حاصل کرنے کیلیے جو راستہ چنا ہے وہ غلط ہے۔ اسی طرح دوسرا گروہ لال مسجد کی انتظامیہ کے نیک مقاصد پر ان کے غیرقانونی اقدامات کو ترجیح دے رہا تھا اور اس کا سارا زور اس بات پر تھا کہ لال مسجد کے غازیوں کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے تھا۔ ہمارا ووٹ دوسرے گروپ کی طرف ہے۔ ہم لال مسجد والے مولانا کے مقاصد سے تو اتفاق کرتے تھے مگر جو راستہ انہوں نے چنا اس کے حق میں نہیں تھے۔

خودکش حملہ آور بھی ظلم، ناانصافی اور غیراسلامی سرگرمیوں کے خاتمے کیلیے موت کو گلے لگانے پر تیار ہوجاتے ہیں مگر جو راستہ وہ چنتے ہیں اس سے وہ اپنے مقاصد پوری طرح حاصل نہیں کرپاتے۔ فرض کریں ایک خود کش حملہ آور نےایک وقت میں سو دشمن مار دیے لیکن اس کیساتھ ہی اس کی طاقت بھی ختم ہوگئ۔ اگر وہی دھشت گرد خودکشی نہ کرتا اور باقی زندگی انہی مقاصد کے حصول کیلے گزارتا تو شاید وہ کئ سو لوگوں کو اپنے کاز کیلیے قائل کرلیتا جس کے اندر سے ایک بڑا انقلاب جنم لیتا۔

لال مسجد کے غازی بھی اگر سمجھدار ہوتے تو اپنے سے سو گنا بڑی طاقت سے کبھی ٹکر نہ لیتے۔ آج اگر وہ ہتھیار نہیں ڈالتے تو ہو سکتا ہے وہ قتل ہوجائیں یا گرفتار کرلیے جائیں۔ دونوں صورتوں میں ان کا مشن یہیں پر ختم ہوجائے گا۔ ان کا مدرسہ ہمیشہ کیلیے بند ہوجائے گا اور مدرسے کے ہزاروں طلبا تعلیم ادھوری چھوڑ کر تتر بتر ہوجائیں گے۔ اب وقت ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور ان کے ہتھیار ڈالنے کی صورت میں بھی ان کی باقی ماندہ زندگی جیل میں گزرے گی لیکن ان کے ہتھیار ڈالنے سے بہت سے معصوم لوگوں کی جانیں بچ جائیں گی۔

یہی غازی برادران اگر قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا احتجاج جاری رکھتے تو کئی گنا زیادہ فائدے میں رہتے۔ حکومت نے مساجد گرائیں، انہوں نے لائبریری پر قبضہ کرلیا۔ جب حکومت نے مساجد بنانے کا وعدہ کرلیا تو انہیں لائبریری خالی کردینی چاہیے تھی۔ اگر حکومت اپنے وعدے سے منحرف بھی  ھوجاتی جس طرح وہ ہوئی تو بھی وہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کرتے۔ اسی طرح آنٹی شمیم اور پارلر والی چینی خواتین کو پکڑ کر مدرسے لانے کی بجائے مولانا اگر وکلا کی خدمات حاصل کرتے، پولیس پر دباؤ ڈالتے رہتے اور اپنے خطبوں میں رائے عامہ کو ہموار کرتے تو دور رس نتائج حاصل کرسکتے تھے۔ اس طرح ان کے مدرسے بھی بند نہ ہوتے اور ان مدرسوں سے تعلیم حاصل کرنے والی نیک اور پاک عورتیں صالح بچے پیدا کرتیں۔ بچوں کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتیں اور اس طرح ایک بہت بڑے انقلاب کی بنیاد رکھ دیتیں۔ ہوسکتا ہے مولانا حضرات اپنی کوششوں کا پھل اپنی زندگی میں نہ چکھتے مگر آنے والا وقت ان کو ہمیشہ اچھے لفظوں سے یاد کرتا۔ مولانا کو یہ یاد رکھنا چاہیے تھا کہ اسلام چند دنوں میں نہیں پھیلا بلکہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد سوا ارب تک پہنچنے کیلیے پندرہ سو سال لگے۔

دراصل ہم لوگ مجموعی طور پر جلد باز واقع ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو ہماری نظرمیں ٹھیک ہے وہ دنوں میں نافذ ہوجائے چاہے اس کیلیے ناجائز اور پرخطر راستے ہی کیوں نہ اختیار کرنے پڑیں۔ یہ سراسر ناسمجھی اور کم عقلی ہے کہ آدمی ایک رات میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی امید باندھ لے۔ یہی جلد بازی ہمیں سیاسی حکومت پر قبضہ کرنے والے آمر کی حمایت کرنے پر اکساتی ہے کیونکہ ایک آمر دنوں میں سسٹم کو ٹھیک کرنے کا وہ وعدہ کرتا ہے جو کبھی پورا نہیں ہوسکتا یا وہ کر ہی نہیں سکتا۔ چند سال معصوم لوگ آمر کے وعدے کے چکر میں انتظار کرتے رہتے ہیں اور جب کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا تو پھر اسی قسم کے دوسرے آدمی کے وعدوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ہمیں اس سارے واقعے سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ اپنی عارضی زندگی کو جلد بازی میں ضائع کرنے کی بجائے سوچ سمجھ کر گزارنا چاہیے تاکہ ہم زیاد سے زیادہ اپنے مقاصد حاصل کرسکیں۔ جب بچے کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلیے کم از کم چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے اور لڑکے کو بالغ ہونے کیلیے سولہ سال چائیں تو پھر اسی طرح دوسرے مقاصد کے حصول کیلیے بھی لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ دنیا میں کامیابی کیلیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے اور جو لوگ شارٹ کٹ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنی زندگی کو بھی شارٹ کرلیتے ہیں۔ 

اس موضوع پر ہماری سابقہ تحاریر جامعہ حفصہ کی طالبات اور انتظامیہ کی ٹکر،  جامعہ حفصہ کے بارے میں حکومت کا کمزور موقف اور لال مسجد کو مزید لال ہونے سے اب بھی بچایا جاسکتا ہے