ایک دن میں اے پی سی شروع ہونے والی ہے لیکن اس کی اہمیت لال مسجد کے کرائسسز نے کم تو نہیں کی مگر توجہ ذرائع ابلاغ سے ضرور ہٹا دی ہے۔ اب ٹی وی چینلز دن رات لال مسجد کے بحران کو کور کررہے ہیں اور پتہ نہیں وہ اے پی سی کی کوریج کیلیے کس طرح وقت نکالیں گے۔ حکومت کیلیے لال مسجد کا ایشو ایک رحمت بن کر نازل ہوا ہے یا پھر حکومت نے خود اس وقت کا تعین کیا ہے تاکہ وہ عوام کی توجہ اے پی سی،  چیف جسٹس کے بحران اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں اپنی ناکامی سے ہٹا سکے۔ حکومت اگر یہ سوچ رہی ہے تو وہ غلطی پر ہے اور یہ مستقل نہیں بلکہ عارضی حل ثابت ہو گا ان مستقل پریشانیوں کا جو پاکستانیوں کو آج کل لاحق ہیں۔

اگر اے پی سی والے واقعی فوجی حکومت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور فوج کو بیرکوں میں واپس بھیجنا[ناممکن نہیں مگر بہت مشکل کام] چاہتے ہیں تو ہماری گزارشات بھی سن لیں۔

1۔ تمام جماعتیں عہد کریں کہ وہ جنرل مشرف کو دوبارہ انہی اسمبلیوں سے منتخب نہیں ہونے دیں گی چاہے اسکیلے انہیں اپنی اسمبلی کی سيٹوں کی قربانی بھی دینی پڑے۔ ویسے یہ قربانی، بکر عید کی قربانی سے بہت بڑی ہے اور امید نہیں ہے کہ اے پی سی والے یہ قربانی دے سکیں۔

2۔ جنرل مشرف کو انہی اسمبلیوں سے دوبارہ صدر منتخب ہونے سے روکنے کیلیے باقاعدہ حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ ایک یہ ہے کہ وہ اسمبلی کے اس اجلاس کی کاروائی ہی نہ ہونے دیں جس میں صدر کے انتخاب کیلیے ووٹنگ ہونے والی ہو۔ اس مقصد کیلیے وہ بجٹ اجلاسوں کی طرح کا احتجاج کرکے اسپیکر کو مجبور کردیں کہ وہ اجلاس ملتوی کردیں۔

3۔ اگر تجویز نمبر دو قابل عمل نہ ہو تو پھر سرحد اور بلوچستان اسمبلی توڑ دیں اور قومی اسمبلی سے استعفے دے دیں۔ ہوسکتا ہے حکومت حزب اختلاف کے اس اقدام کے بعد اسمبلیوں کی مدت ایک سال بڑھا دے اور ضمنی انتخابات کا اعلان کردے۔ لیکن حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک کی دھمکی حکومت کو اس اقدام سے روک سکتی ہے۔

4۔ اگر حکومت دھمکی سے مرعوب نہ ہو تو پھر حزب اختلاف کو احتجاجی تحریک کیلیے تیار رہنا چاہیے۔ آج کل عوام جتنے مہنگائی، بجلی اور پانی سے تنگ آئے ہوئے ہیں پہلے کبھی نہیں تھے انہیں صرف ایک سچے لیڈر کی تلاش ہے جو سابقہ لیڈروں کی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے سیاسی لیڈروں سے متنفر عوام کو روشنی کی نئی کرن دکھائے۔

5۔ اگر جنرل مشرف کسی وجہ سے دوبارہ صدر منتخب ہوجائیں اور انتخابات کا اعلان کردیں تو پھر سیاسی پارٹیوں کو مشرف ہٹاؤ مہم کا نعرہ بلند کرکے ایک پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لینا ہوگا۔ اس طرح وہ مسلم لیگ ق کو يقنی شکست دے دیں گے اور اس کے بعد دو تہائی اکثریت کے بل بوتے پر جنرل مشرف کے مؤاخذے کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کرکے انہیں گھر بھیج دیں۔

لیکن ایک بات یاد رہے چونکہ فوج حکومتی معاملات ميں اب اس قدر ملوث ہوچکی ہے وہ جنرل مشرف کی برطرفی کو برداشت کرنے میں ضرور ہچکچائے گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں فوج کو جمہوریت کی بساط لپیٹنےسے روکنے کیلیے عوامی غیض و غضب کا ڈراوا دیں اور فوج کو رام کرنے کی کوشش کریں۔ بعد میں اسمبلی سے فوج کو بیرکوں تک محدود رکھنے کا بل بھی دو تہائی اکثریت سے پاس کرلیا جائے۔ ہماری یہ تجویز حقیقی کم اور خیالی زیادہ ہے  کیونکہ اب فوج کو حکومت سے باہر رکھنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا اسے فوجی فاؤنڈیشن اور این ایل سی سے دستبردار کرانا۔ اس تجویز کو عملی شکل کیسے دی جائے یہ اے پی سی میں معاملہ ڈسکس ہوسکتا ہے۔

6۔ جب صدر جنرل مشرف کا مؤاخذہ ہوجائے اور فوج کو بیرکوں تک محدود رکھنے کا قانون پاس ہوجائے تو پھر سیاسی پارٹیاں نئی قومی حکومت قائم کرکے دوبارہ انتخابات کا اعلان کردیں اور جو بھی جیتے وہ حکومت بنا لے۔

7۔ اے پی سی کےپاس عارضی اتحاد کے علاوہ باقی آپشنز بہت کمزور ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ وہ کسی اور آپشن سے جنرل مشرف کو پنشن دے کر گھر بھیجنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔

8۔ موجودہ حکومت سیلاب اور لال مسجد کے بحران کی وجہ سے اسمبلیوں کی میعاد ایک سال بڑھا سکتی ہے۔ اگر حکومت یہ چال چلے تو پھر حزب اختلاف کو اپنا سارا زور جنرل مشرف کو دوبارہ انہی اسمبلیوں سے منتخب ہونے سے روکنے پر لگانا ہوگا۔ جیسا کہ پہلے ہم تجویز دے چکے ہیں اس کا حل یہی ہے کہ اسمبلیوں کے اجلاس نہ ہونے دیے جائیں اور دوسرے عوامی تحریک کا اعلان کردیا جائے۔

 ہماری ساری تجاویز کا دارومدار حزب اختلاف کے اتحاد پر منحصر ہے جو فی الحال جوئے شير لانے کے مترادف ہے۔ اگر حزب اختلاف واقعی جنرل مشرف سے جان چھڑانا چاہتی ہے تو پھر اسے بھٹو ہٹاؤ جمہوری اتحاد کی تحریک والی تاریخ دہرانی ہوگی اور یہ کرشمہ صرف جمہوری اتحاد دوبارہ قائم کرکے ہی دکھایا جاسکتا ہے۔