شکایت تبھی جائز ہوتی ہے جب تک آپ نے بدلہ نہ لے لیا ہو۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں لڑائی میں برابر کی گالی گلوچ بکتے ہیں اور پھر آخر میں معصوم بن کر اور رو کر دوسرے کی شکایت کرنے لگتے ہیں۔ ایسا اکثر ساس بہو کی لڑائی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں جب خود ہی حساب برابر کر لیا تو پھر شکایت کس بات کی۔
انڈین سزایافتہ دہشت گرد سربجیت کی پاکستانی قیدیوں کے حملے میں ہلاکت کے بعد انڈین میڈیا نے بہت شور مچایا اور یہاں تک کہہ دیا کہ انڈیا کو بھی امریکہ کے اسامہ پر حملے کی طرح پاکستان کے اندر سربیت کے قاتلوں کو ٹھکانے لگا دینا چاہیے۔ ابھی سربجیت کی لاش کو آگ بھی نہیں لگائی گئی تھی کہ انڈین جیل میں ایک پاکستانی قیدی ثنااللہ کو انڈین قیدی نے حملہ کر کے زخمی کر دیا جو اب موت و حیات کی کشمکش سے گزر رہا ہے۔
اس کے بعد انڈین میڈیا اور حکومت کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ وہ سربجیت کی موت کے ڈرامے کو مزید طوالت دے۔ اگر انڈین میڈیا غیرجانبدار ہے تو پھر اسے ثنااللہ پر ہونے والے حملے پر انڈین حکومت کو بھی اتنا ہی کوسنا چاہیے جتنا اس نے سربجیت کی موت پر پاکستان کو کوسا۔
ایک ہمارا میڈیا ہے جس نے ثنااللہ پر حملے کو اتنی کوریج نہیں دی جتنی انڈین میڈیا نے سربجیت کے مرنے پر شور مچایا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کون دوستی کرنا چاہتا ہے اور کون اب بھی دشمنی کی آگ بھڑکائے رکھنا چاہتا ہے۔
میڈیا اور حکمرانوں کو خدا کا خوف بھی نہیں ہے کہ ایک طرف عوام ایک دوسرے کی بنی چیزیں بازار سے خرید رہے ہیں، فلمیں دیکھ رہے ہیں اور ٹی وی پروگراموں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور دوسری طرف میڈیا اور سیاستدان دشمنی کو ختم کرنے کی بجائے مزید بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ لعنت ہے ایسی خودغرضی پر جو معصوم لوگوں کی لاشوں پر سیاست جمکاتے ہوئے بھی نہیں ڈرتی۔