حبيب جالب ايک چيز فيض اور ساحر لدھيانوي کے ساتھ مشترک رکھتے ہيں اور وہ ہے ان کي تيکھي اور ميٹھي شاعري جو ايک عام آدمي کيلۓ ہوتي ہے۔ان لوگوں نے اس سسٹم کي بھرپور مخالفت کي جو عام آدمي کے حقوق اور اظہار راۓ چھين ليتا ہے۔
جالب کو ١٩٦٠ کے عشرے ميں جيل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے کچھہ اشعار لکھے”سرِمقتل” کے عنوان سے جو حکومتِ وقت نے ضبط کر ليۓ ليکن انہوں نے لکھنا نہيں چھوڑا۔
جالب نے ١٩٦٠ اور ١٩٧٠ کے عشروں بہت خوبصورت شاعري کي جس ميں انہوں نے اس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھرپور احتجاج کيا۔ جالب کبھي بھي حکومت کي طاقت اور ظالم کي دولت سے مرعوب نہيں ہوۓ اور جو کچہ وہ لکھ سکتے تھے انہوں نے ظالم حکمرانون کے خلاف لکھا۔
ان کي تحريريں اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھي تک موجودہ حالات کي عکاسي کرتي ہيں۔
ان کي ايک نظم کےکچھ بند يہاں پيش کۓ جاتے ہيں۔

روٹي کپڑا اور دوا
گھر رہنے کو چھوٹا سا
مفت مجھے تعليم دلا
ميں بھي مسلمان ہوں ولا للہ
پاکستان کا مطلب کيا
لا الہ الاللہ
امريکہ سے مانگ نہ بھيک
مت کر لوگوں کي تضحيق
روک نہ جمہوري تحريک
چھوڑ نہ آزادي کي راہ
پاکستان کا مطلب کيا
لا الہ الاللہ
کھيت وڈيروں سے لے لو
مليں لٹيروں سے لے لو
ملک اندھيروں سے لے لو
رہے نہ کوئي عاليجاہ
پاکستان کا مطلب کيا
لا الہ الاللہ