لال مسجد آپریشن کے بعدلال مسجد کا بحران جو تقریباً پرامن حل ہونے ہی والا تھا کہ کسی خفیہ ہاتھ کی کارستانی کی وجہ سے سانحے ميں بدل گیا۔ یہ سانحہ ساری قوم کی توجہ کا طالب ہے اور قوم سے توقع کرتا ہے کہ وہ اس میں چھپے ان سوالوں کے جواب ڈھونڈے جو فوجی حکمرانوں کی دہشت گردوں کیخلاف مہم کی گرد میں اٹے ہوئے ہیں۔

 اگر ڈینیل پرل نو گیارہ کا سراغ لگانے کیلیے پاکستان آسکتا ہے تو ہمارا اپنا میڈیا اس سانحے کی اصل وجہ جاننے کی کوشش آسانی سے کرسکتا ہے۔

 یہ سانحہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہے۔

1. وہ کونسی طاقت تھی جس نے اس سانحے کا پرامن حال آخری وقت ميں رد کردیا؟

2. وہ کونسی طاقت تھی جس نے لال مسجد کا محاصرہ جاری رکھنے کی بجائے طاقت کے استعمال کو اولیت دی؟

3. کتنے لوگ اس سانحے میں جاں بحق ہوئے؟

4۔ اس سانحے کے بعد بازیاب کیا گیا اسلحہ کیا واقعی لال مسجد والوں کی ملکیت تھا؟

5. لال مسجد کو انتہا پسندوں سے واگزار کرانے میں تو ایک دن لگا مگر اس کی صفائی میں دو دن کیوں لگے؟

6. میڈیا کو لال مسجد اور مدرسے کی صفائی سے پہلے دیکھنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔

7. ہسپتالوں سے میڈیا اور ورثا کو کیوں دور رکھا گیا؟

8. جاں بحق ہونے والوں کی میتیں ورثا کے حوالے کیوں نہیں کی گئیں؟

9. مزاحمت کاروں کو جدید اسلحہ استعمال کرنے سے پہلے ہی اعصاب شکن گیس سے تو جاں بحق نہیں کیا گیا؟

10. بمباری سے عمارتوں میں جو آگ لگی، اس آگ میں کتنے لوگ جل کر راکھ ہوئے؟

ان سب سوالوںکا جواب ڈھونڈنا اس جدید دور میں مشکل نہیں ہے۔ ميڈیا اپنی مشترکہ کوششوں سے چند لوگوں پر مشتمل تحقیقی ٹیم بنا کر بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا سکتا ہے۔ مگر اس حکومت کے دور میں شاید میڈیا کیلیے ممکن نہ ہو کیونکہ میڈیا ابھی تک پوری طرح آزاد نہیں ہے۔

پھر بھی میڈیا ایک انفارمیشن سینٹر قائم کرسکتا ہے جہاں پر جاں بحق ہونے والے لوگوں کے ورثا سے ان کے گمشدہ عزیزوں کی معلومات اکٹھی کی جاسکتی ہیں۔

جو اسلحہ لال مسجد سے برآمد کیا گیا اس پر تحقیق کرکے پتہ چلایا جاسکتا ہے کہ کیا حکومت نے بعد میں باہر سے تو نہیں پہنچایا۔ کیونکہ جس طرح کا غیر استعمال شدہ اسلحہ دکھایا گیا ہے وہ دیکھ کرحیرانی ہوتی ہے کہ مزاحمت کاروں نے اسے استعمال کیوں نہیں کیا؟ راکٹ لانچرز، گرینیڈز،ریپیٹر، ہیوی مشین گنیں اگر چلائی جاتیں تو فوج کا زیادہ نقصان ہوتا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ مزاحمت کاروں کو اسلحہ استعمال کرنے سے روکنے کیلیے چند روز قبل درآمد کی گئ اعصاب شکن گیس چھوڑ دی گئی ہو جس کی حکومت نے تردید کی ہے۔ اس گیس کے ذرات یا نمونےجائے واردات سے آسانی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

مرانے والوں کے عزیزواقارب ایک کمیٹي تشکیل دے سکتے ہیں جو یہ معلوم کرے کہ ان کے نہ ملنے والے عزیزوں کا کیا بنا؟

این جی اوز جو سب سے زیادہ اس سانحے پر خوش ہیں کیونکہ انہیں معاشرے کو مزہبی لوگوں سے پاک کرنے اور کھلا ڈلا معاشرہ قائم کرنے کیلیے بیرونی امداد ملتی ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اسی طرح اس سانحے میں بھی غائب ہونے والوں کی تفصیل حکومت سے مانگنے پر زور دے سکتی ہیں اور پریس میں واویلہ مچا سکتی ہیں، جس طرح انہوں نے اس سے پہلے غائب ہونے والوں کے ورثا کیساتھ ملکر حکومت کیخلاف ایک مہم شروع کررکھی ہے۔ مگر وہ ایسا نہیں کریں گی کیونکہ اس طرح ان کی فنڈنگ رک جائے گی۔

سپریم کورٹ اس سانحے میں بھی غائب ہوجانے والوں کی بازیابی بھی اپنے سوموٹو ایکشن میں شامل کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ والی آپشن سب سے زیادہ قابل عمل ہے۔ سپریم کورٹ کے سوموٹو ایکشن لینے سے ایک طرف اگر جاں بحق ہونے والوں کے عزیزواقارب معلومات فراہم کریں گے تو دوسری طرف حکومت کو بھی معلومات مہیا کرنے پر مجبور ہوگی۔ سپریم کورٹ اسلحے کی بازیابی کے سچے یا جھوٹے ہونے پر بھی اپنی رائے دے سکتی ہے۔ مگر شاید سپریم کورٹ ایسا سوموٹو ایکشن نہ لے پائے کیونکہ اس نے پہلے ہی کہ دیا ہے کہ جہاں سے فوج کی حد شروع ہوتی ہے وہاں پر سپریم کورٹ کی حد ختم ہوجاتی ہے۔

ایک مسلمان ملک میں جاں بحق ہونے والوں کو پتہ نہیں غسل بھی نصیب ہوا کہ نہیں اور ان کی نماز جنازہ بھی کسی نے جنازہپڑھائی کہ نہیں۔ بقول ایک گواہ کے اس نے کئی طالبات کی لاشیں مسجد کے ساتھ گندے نالے میں پڑی دیکھیں۔ ایک گورکن نے بتایا کہ ہر ڈبے میں ایک سے زیادہ لوگوں کو دفن کیا گیا اور اس کے مطابق اب تک ایک سو تہتر مردے دفن کئے جاچکے ہیں۔ ان سب گواہیوں کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کا صیحح اندازہ لگایا جائے۔

اگر سب لوگ خاموش رہے، تو پھر ان سوالوں کا جواب کون ڈھونڈے گا؟

اسی طرح کا ایک سوال ڈاکٹر شاہد مسعود نے آج کے جنگ میں اپنے کالم میرے مطابق میں بھی پوچھا ہے اور اسی طرح کی سوچ یہ پوسٹ لکھنے کی وجہ ہے۔ اسی سوچ نے ہمارے ذہن کو کئی دن سے ماؤف کررکھا ہے کہ سینکڑوں طالبات جنہوں نے آگے چل کر ایک مکمل اسلامی ماں کا روپ دھارنا تھا وہ خود غرضی اور حکومت کے آقاؤں کی خوشنودی کی بھینٹ چرھ گئیں۔

شہرنامہ

سانحہ لال مسجد پر احمد فراز کا تازہ کلام

وہ عجیب صبحِ بہار تھی

کہ سحر سے نوحہ گری رہی

مری بستیاں تھیں دُھواں دُھواں

مرے گھر میں آگ بھری رہی

میرے راستے تھے لہو لہو

مرا قریہ قریہ فگار تھا

یہ کفِ ہوا پہ زمین تھی

وہ فللک کہ مشتِ غبار تھا

کئی آبشار سے جسم تھے

کہ جو قطرہ قطرہ پگھل گئے

کئی خوش جمال طلسم تھے

جنھیں گرد باد نگل گئے

کوئی خواب نوک سناں پہ تھا

کوئی آرزو تہِ سنگ تھی

کوئی پُھول آبلہ آبلہ

کوئی شاخ مرقدِ رنگ تھی

کئی لاپتہ میری لَعبتیں

جو کسی طرف کی نہ ہوسکیں

جو نہ آنے والوں کے ساتھ تھیں

جو نہ جانے والوں کو روسکیں

کہیں تار ساز سے کٹ گئی

کسی مطربہ کی رگ گُلُو

مئے آتشیں میں وہ زہر تھا

کہ تڑخ گئے قدح و سَبُو

کوئی نَے نواز تھا دم بخود

کہ نفس سے حدت جاں گئی

کوئی سر بہ زانو تھا باربُد

کہ صدائے دوست کہاں گئی

کہیں نغمگی میں وہ بَین تھے

کہ سماعتوں نے سُنے نہیں

کہیں گونجتے تھے وہ مرثیے

کہ انیس نے بھی کہے نہیں

یہ جو سنگ ریزوں کے ڈھیر ہیں

یہاں موتیوں کی دکان تھی

یہ جو سائبان دھوئیں کے ہیں

یہاں بادلوں کی اڑان تھی

جہاں روشنی ہے کھنڈر کھنڈر

یہاں قُمقُموں سے جوان تھے

جہاں چیونٹیاں ہوئیں خیمہ زن

یہاں جگنوؤں کے مکان تھے

کہیں آبگینہ خیال کا

کہ جو کرب ضبط سے چُور تھا

کہیں آئینہ کسی یاد کا

کہ جو عکسِ یار سے دور تھا

مرے بسملوں کی قناعتیں

جو بڑھائیں ظلم کے حوصلے

مرے آہوؤں کا چَکیدہ خوں

جو شکاریوں کو سراغ دے

مری عدل گاہوں کی مصلحت

مرے قاتلوں کی وکیل ہے

مرے خانقاہوں کی منزلت

مری بزدلی کی دلیل ہے

مرے اہل حرف و سخن سرا

جو گداگروں میں بدل گئے

مرے ہم صفیر تھے حیلہ جُو

کسی اور سمت نکل گئے

کئی فاختاؤں کی چال میں

مجھے کرگسوں کا چلن لگا

کئی چاند بھی تھے سیاہ رُو

کئی سورجوں کو گہن لگا

کوئی تاجرِ حسب و نسب

کوئی دیں فروشِ قدیم ہے

یہاں کفش بر بھی امام ہیں

یہاں نعت خواں بھی کلیم ہے

کوئی فکر مند کُلاہ کا

کوئی دعوٰی دار قبا کا ہے

وہی اہل دل بھی ہیں زیبِ تن

جو لباس اہلِ رَیا کا ہے

مرے پاسباں، مرے نقب زن

مرا مُلک مِلکِ یتیم ہے

میرا دیس میرِ سپاہ کا

میرا شہر مال غنیم ہے

جو روش ہے صاحبِ تخت کی

سو مصاحبوں کا طریق ہے

یہاں کوتوال بھی دُزد شب

یہاں شیخ دیں بھی فریق ہے

یہاں سب کے نِرخ جدا جدا

اسے مول لو اسے تول دو

جو طلب کرے کوئی خوں بہا

تو دہن خزانے کے کھول دو

وہ جو سرکشی کا ہو مرتکب

اسے قُمچیوں سے زَبُوں کرو

جہاں خلقِ شہر ہو مشتعل

اسے گولیوں سے نگوں کرو

مگر ایسے ایسے غنی بھی تھے

اسی قحط زارِ دمشق میں

جنھیں کوئے یار عزیز تھا

جو کھڑے تھے مقتلِ عشق میں

کوئی بانکپن میں تھا کوہکن

تو جنوں میں قیس سا تھا کوئی

جو صراحیاں لئے جسم کی

مئے ناب خوں سے بھری ہوئی

تھے صدا بلب کہ پیو پیو

یہ سبیل اہل وفا کی ہے

یہ نشید نوشِ بدن کرو

یہ کشید تاکِ وفا کی ہے

کوئی تشنہ لب ہی نہ تھا یہاں

جو پکارتا کہ اِدھر اِدھر

سبھی مفت بر تھے تماشہ بیں

کوئی بزم میں کوئی بام پر

سبھی بے حسی کے خمار میں

سبھی اپنے حال میں مست تھے

سبھی راہروانِ رہِ عدم

مگر اپنے زعم میں ہست تھے

سو لہو کے جام انڈیل کر

مرے جانفروش چلے گئے

وہ سکوُت تھا سرِ مے کدہ

کہ وہ خم بدوش چلے گئے

کوئی محبسوں میں رَسَن بہ پا

کوئی مقتلوں میں دریدہ تن

نہ کسی کے ہاتھ میں شاخ نَے

نہ کسی کے لب پ گُلِ سخن

اسی عرصہء شب تار میں

یونہی ایک عمر گزر گئی

کبھی روز وصل بھی دیکھتے

یہ جو آرزو تھی وہ مرگئی

یہاں روز حشر بپا ہوئے

پہ کوئی بھی روز جزا نہیں

یہاں زندگی بھی عذاب ہے

یہاں موت بھی شفا نہیں

مشکل الفاظ

لعبت:: گڑیاں، مورتیاں، کھلونے

مطربہ: خوش کرنے والا، قوال

گلو: حلق، کنٹھ، گردن

دُزد: چور، سرقہ

قمچیوں: چابک، چھڑی، ہنٹر

قدح و سبو: بڑا پیالہ اور صبح کی شراب

باربُد: یونانی موسیقار جو المیہ دھنیں بناتا تھا

چکیدہ: ٹپکا ہوا

تاک: انگور

خم بدوش: شراب کا مٹکا اٹھانے والا

محبسوں: حساب کتاب کرنے والا