پچھلے ہفتے لال مسجد کا سانحہ گزرا، حکومتی حلقوں میں کوئی خاص افسردگی دیکھنے کو نہیں ملی بلکہ اعتدال پسند اور روشن خیال جشن مناتے نظر آئے اور اکثریت نے یہی کہا کہ حکومت کے اندر حکومت کرنے والوں کا یہی انجام ہونا چاہیے تھا۔ حکومت کی اس کامیابی اور روشن خیالوں کا جشن ابھی ٹھنڈا نہیں پڑا تھا کہ سرحد اور شمالی علاقوں میں انتہا پسندوں نے کئی خود کش دھماکے کرکے فوج اور سولین سمیت سینکڑوں لوگ ہلاک و زخمی کردیے۔ ان دھماکوں پر اب انتہاپسند جشن منارہے ہوں گے اور بدلے کی آگ ٹھنڈی کررہے ہوں گے۔

حکومتی حلقے نہ لال مسجد کے سانحے پر شرمندہ ہوئے اور نہ اب موجودہ دہشت گردہ شرمندہ ہوں گے بلکہ پاکستان کی پرانی روایت یعنی لاشوں پر سیاست چمکانے کی سوچ پروان چڑھنے لگے گی۔ انتہا پسند لال مسجد میں جاں بحق ہونے والوں کو شہید کہ کر عام پبلک کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کررہے اور حکومت اب خود کش دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں پر عام پبلک اور بین الاقوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے گی۔

اس روشن خیالی اور مذہبی انتہا پسندی کا شکار تو عام پبلک ہورہی ہے دوسرا کوئی نہیں۔ انتہا پسندوں کو اس سے غرض نہیں کہ جو سپاہی جاں بحق ہوئے ان کا قصور کیا تھا اور ان  کے لواحقین پر کیا گزرے گی۔ اسی طرح روشن خیالوں کو بھی پرواہ نہیں کہ جامعہ حفصہ میں جاں بحق ہونے والے طلبا اور طالبات کا قصور کیا تھا اور ان کے لواحقین پر کیا گزرے گی۔

حکومت نے جب لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر چڑھائی کی تو اس نے منصوبہ بندی کرتے وقت ان خود کش حملوں کے تدارک کے بارے میں کیوں نہیں سوچا۔ شاید حکومت کو اس سے کوئ غرض نہیں کہ لال مسجد کے سانحے میں کتنے معصوموں کی جانیں گئیں اور اس کے بعد کتنے فوجی سپاہی اور عام لوگ اس کی غلط منصوبہ دندی کی بھینٹ چڑھیں گے۔ بلکہ حکومت تو الٹی خوش ہورہی ہوگی کیونکہ اسے اپنے اقتدار کو طول دینے کا جواز مہیا ہورہا ہے۔ اگر قتل و خون کا یہی سلسلہ جاری رہا تو حکومت آسانی سے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا بہانہ تراش لے گی اور فوجی ڈکٹیٹرشب کا عرصہ بڑھا دے گی۔ حکومت کو پرواہ نہیں کہ اس ڈکٹیٹرشب کا ملک کو کتنا نقصان ہوگا یا لوگوں کے حقوق کتنے متاثر ہوں گے۔ اسے تو صرف یہ فکر ہے کہ اس کا تختہ نہ الٹ دیا جائے۔

 غیروں نے ہمیشہ ہمیں تقسیم کرکے فائدہ اٹھایا ہے اور اب بھی پاکستانیوں کو انتہاپسندوں اور روشن خیالوں میں تقسیم کرکے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ غیروں کو کامیابی تبھی حاصل ہوتی ہے جب ہم میں سے کچہ لوگ ان کیساتھ جا ملتے ہیں۔ اگر حکومت حساس ہو اور ملک کی خیر خواہ ہو تو اسے غیروں کی اس چال کو سمجھ جانا چاہیے۔ جس طرح لال مسجد کے بحران کو لٹکا کر حکومت نے نقصان اٹھایا اسی طرح رد عمل کو لٹکا کر بھی نقصان ہی اٹھائے گی۔

اس سارے قضیے کا حل کسی نہ کسی کی قربانی مانگتا ہے۔ یہ قربانی چاہے انتہاپسند دے دیں اور وہ بدلے کی آگ کو خود کش حملوں سے ٹھنڈا کرنے کی بجائے پرامن انقلاب سے ٹھنڈا کریں۔ اسی طرح حکومت اگر آج فوجی اقتدار کا خاتمہ کردے اور ملک میں نگران حکومت کی نگرانی میں انتخابات کا اعلان کردے تو ملک اس انارکی سے بچ سکتا ہے۔ مگر اتنی بڑی قربانی کون دے گا۔۔ نہ جانے کب کوئی مسیحا آۓ گا جو غیروں کی سازشوں کو ننگا کرے گا اور ملک کے عوام کی خواہش کے مطابق عوام کی حکومت قائم کرے گا۔

اسی بے حسی کی گواہی دیتا آج کے جنگ میں حامد میر کا کالم “انتہا پسند کون؟“، عظیم سرور کا کالم “بارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد” اور رحمت علی رازی کا کالم “یہ گھڑي ہے دن کے زوال کی“توجہ طلب ہیں۔ لال مسجد کا نوحہ لکھنے والوں کی اسی طرح اگر ہم تفصیل دینے لگے تو اس پوسٹ کی لمبائی ناپی نہ جاسکے گی۔ جو بھی اخبار اٹھا کر دیکھیں ہر ذی شعور اور ہمدرد آدمی کے قلم سے آنسو ٹپک رہے ہیں۔ ایک ہمارے سربراہ ہیں کہ اس کشت و خون میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں بشرطیکہ میڈیا لاشیں نہ دکھا کر ان کی کرسی کیلیے خطرہ نہ پیدا کردے۔