شاہ زیب کے قاتلوں کو معافی کیا ملی کئی وہشتناک جرائم نے جنم لینا شروع کر دیا۔ پاکستان کے تین شہروں میں یکے بعد دیگرے بچیوں کیساتھ زیادتی کی خبریں میڈیا پر چلنے لگیں۔ یہ تو وہ جرائم ہیں جو میڈیا پر آ گئے، ابھی پتہ نہیں روزانہ کتنے جرائم ہوتے ہیں جن پر لوگ اپنی عزت بچانے کیلیے پردہ ڈال دیتے ہیں۔
معاشرہ اگر سو فیصد پاک و صاف ہوتا تو پھر دنیا میں تھانے نہ ہوتے اور جیلیں نہ ہوتیں۔ مگر ان تھانوں اور جیلوں کا خوف قانون پر عمل کے بغیر ادھورا ہے اور قانون پر عمل کروانا حکومت کا کام ہے۔
متقی حکمران تو اپنے دور حکومت میں کتے کے بھوکہ رہنے پر بھی پریشان ہو جاتے ہیں مگر نام کے مسلمان حکمران سنبل کیساتھ ہونے والی زیادتی پر افسردہ تک نہیں ہوتے۔ میاں نواز شریف چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہیں تو خودغرضی کی سوچ کیساتھ۔ مگر سنبل اور شاہ زیب ان کیلیے معمول کے جرائم ہیں جن کی ذمہ داری وہ نہیں لیتے۔ مگر میاں برادران یاد رکھیں روز قیامت یہی جرائم ان کے جنت میں داخلے کیلیے رکاوٹ بن جائیں گے۔ مگر میاں برادران کو فکر تب ہو جب انہیں روز آخرت کا پکا یقین ہو۔ ان کیلیے تو یہ دنیا ہی اول و آخر ہے کیونکہ یہی ان کے طرز حکومت سے نظر آ رہا ہے۔ مگر وہ یاد رکھیں خدا کی لاٹھی بے آواز ہے، جب معاشرے کی گھٹن حدوں سے گزر گئی تو سب سے پہلے عوام کے ہاتھوں میں انہی کا گریبان ہو گا اور وہی دن ان کیلیے قیامت کا دن ہو گا۔ اس کے بعد موت ہوگی، دوزخ ہو گی اور میاں برادران کے جلتے جسم ہوں گے۔