جنرل مشرف نے نو گیارہ کے بعد جب اتحادیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور افغان پالیسی سے یوٹرن لیا تو عوام کوٹھنڈا کرنے کیلیے “سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ بلند کیا مگر اس کے بعد سے آج تک وہ اس نعرے کو حقیقت میں نہیں بدل سکے بلکہ اس نعرے کو “سب سے پہلے ہم” میں بدل لیا۔

آج جب جنرل مشرف دبئی میں بینظیر سے ملے تو دونوں نے “سب سے پہلے ہم” والے نعرے پر اس وقت مہر ثبت کردی جب وردی کے مسئلے پر دونوں اڑ گئے۔ جنرل صاحب وردی سمیت اگلے پانچ سال کیلیے صدر منتخب ہونا چاہتے ہیں اور بینظیر انہیں وردی کے بغیر صدر بنانے پر راضی ہیں۔ “سب سے پہلے ہم” کے نعرے کو عملی شکل دینے کیلیے جنرل مشرف اور بینظیر کے علاوہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی اس ملاقات کی حمایت کردی ہے اور اسی لیے سنا ہے کراچی کے گورنر عشرت عباد بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔

کہاں جنرل مشرف کی آٹھ سالہ رٹ کہ وہ کرپٹ لیڈروں کیساتھ ڈیل نہیں کریں گے اور کہاں اب خود ملنے اس کے پاس جانا۔ کہاں ایم کیو ایم کا واویلا کہ اس کے کارکن سب سے زیادہ ہلاک پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر داخلہ نصیراللہ بابر کے ہاتھوں ہلاک ہوئے اور کہاں اب پی پی پی کیساتھ ملکر حکومت چلانے پر رضامندی۔

مسئلہ اگلے سال کیلیے پانچ سال کی پاکستان میں حکومت کا ہے اور اس کوحل کرنے کیلیے مدد کررہے ہیں دبئی کے حکمران ، اہم عرب شخصیات اور مغربی سفارتکار جو اس میٹنگ میں موجود تھے۔ کیا ہم اتنے گر گئے ہیں کہ اپنے مسائل حل کرنے کیلیے غیروں کا سہارا لینے لگیں اور پاکستان کے مسائل پاکستان سے باہر حل کرنے لگیں۔

قدرت کے کھیل دیکھیے بینظیر نے آج اسی جنرل سے ملاقات کی جس نے آٹھ سال سے بینظیر کو منی لانڈرنگ کے کیس میں پھنسایا ہوا ہے اور اسے پاکستان آنے سے بھی روکے ہوئے ہے۔ اسی جنرل نے بینظیر کے شوہر کو چھ سال تک جیل میں قید رکھا۔ اسی جنرل نے بینظیر کی پارٹی سے آفتاب شیرپاؤ، سکندر اقبال اور فیصل صالح حیات  سمیت اہم لیڈر توڑے اور انہیں وزیر بنایا۔

اسی لیے کہتے ہیں سیاست میں آج کے دشمن کل کے دوست ہوتے ہیں اور سیاست میں کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ اسی وجہ سے سیاست کا لفظ فراڈ اور بیوفائی کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے اور جب کوئی آدمی کسی کو چکر دے رہا ہو تو اسے کہتے ہیں “کیوں میرے ساتھ سیاست کررہے ہو”

بیرون ملک روانگی سے پہلے جنرل مشرف نے اپنے کمانڈروں، سیاستدانوں اور چوہدریوں سے جب ملاقاتیں کیں تو دال میں کچھ کالا ضرور لگ رہا تھا مگر ساری دال کے کالا ہونے کی کسی کو امید نہیں تھی۔ اب تو یہ بات سچ لگنے لگی ہے کہ چوہدریوں سے جنرل صاحب کوئی مشورہ نہیں کرتے بلکہ انہیں یہ بتاتےہیں کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں۔ ابھی ایک روز قبل چوہدری پرویز الٰہی کا بیان تھا کہ مسلم لیگ ق کبھی بھی ملک توڑنے والی جماعت یعنی پی پی پی سے ڈیل نہیں کرے گی۔ اب پتہ نہیں چوہدری صاحب اس ملاقات پر کیا تبصرہ کریں گے اور کس منہ سے اس ملاقات کی حمایت میں بیان دیں گے۔

بینظیر صاحب کو حکومت کیساتھ ڈيل کرتے ہوئے ایک بات کا خیال رکھنا ہوگا۔ جنرل مشرف اس سے قبل کئ  وعدے توڑ چکے ہیں۔ ان کے بقول زبانی وعدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور انہوں نے لکھا ہوا کوئی وعدہ نہیں توڑا۔ اسلیے بینظیر صاحبہ کو ہم یہی مشورہ دیں گے کہ وہ کوئی بھی ڈیل فائنل کرنے سےپہلے اسے تحریر کرکے جنرل مشرف کے دستخط کرالیں وگرنہ بعد میں پچھتائیں گی۔

قیاس یہ بھی کیا جارہا ہے کہ جنرل صاحب ہوسکتا ہے جدہ میں نواز شریف اور شہباز شریف سے بھی ملاقات کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل صاحب کے بینظیر کے پاس چل کر جانے سے انہیں اب اتنا بھی نہ گیا گزرا  سمجھا جائے کہ وہ میاں برادران سے بھی ملیں گے۔ لیکن کیا کیاجائے یہ سیاست ہےاور سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ اگر بینظیر سیاست میں رہنے کیلیے اپنے بھائی کی قربانی دے سکتی ہے، اپنے شوہر سے بگاڑ کر اپنا گھر تک برباد کرسکتی ہے تو پھر جنرل صاحب اپنی انا اور کمانڈو والی شخصیت کو ایک طرف رکھ کر میاں برادران سے کیوں ملاقات نہیں کرسکتے۔ واہ ری سیاست تیرے کیا کہنے۔