موجودہ حکومت قومی ترقی کے بہت سارے نئے پیمانے استعمال کررہی ہے جن میں سے اکثریت کا تعلق اپر کلاس سے ہے۔ مثلا حکومت کہتی ہے کہ  ذر مبادلہ کے ذخائر ریکارڈ حد کو چھو رہے ہیں۔ پاکستان میں کاروں اور موٹرسائیکلوں کی ریل پیل ہے۔ اے سی، ریفریجریٹرز اور ٹی وی لوگ دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں۔  بجلی کے بحران کو بھی انہی بجلی کی چیزوں کی بہتات کو قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ بجلی کا بحران حکومت کی سراسر نااہلی ہے جسے آٹھ سال قبل اتنا بھی علم نہیں تھا کہ آئندہ بجلی کی کھپت کتنی بڑھے گی۔

اسی طرح جنرل مشرف سمیت حکومتی عہدیدار موبائل فون کنکشنوں کی بھرمار کو بھی قومی ترقی کا پیمانہ قرار دے رہے ہیں۔ بقول ان کے ملک میں ہر سال کروڑوں موبائل فونوں کا اضافہ ہورہا ہے۔ غریب سے غریب آدمی بھی سیل فون ہاتھ میں لیے پھر رہا ہے۔ موچی، لکڑہارا اور گھر میں کام کاج کرنے والیوں کے پاس بھی فون ہیں۔ حتی کہ گاؤں گاؤں موبائل فون پہنچ چکے ہیں۔ اس دوران اس طرح کی کئی فوٹو بھی اخباروں میں چھپ چکی ہیں.

ان تصاویر میں فون استعمال کرنے  والے کے رکھ رکھاؤ کی بجائے صرف اس کے موبائل فون کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت بہت بہتر ہوچکی ہے لیکن اگر لکڑہارے اور جوتے پالش کرنے والے کے کپڑوں اور اس کے کام کی طرف دیکھا جائے تو پھر پاکستانی معاشی ترقی کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ کیا کوئی شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ تن کے کپڑوں پر موبائل فون کو ترجیح دے گا۔ اسی طرح جوتے پالش کرنے والے نے کیا واقعی اپنے موبائل فون پر ہزاروں روپے خرچ کیے ہوں گے اور موبائل فون نے اس کا بزنس بڑھا دیا ہوگا؟

حقیقت یہ ہے کہ سیدھے طریقے سے موبائل کا کنکشن لینے کیلیے سب سے بڑا خرچہ موبائل فون کے سیٹ کا خریدنا ہے وگرنہ پاکستان میں اب موبائل فون کا کنکشن دو اڑھائی سو روپے میں مل جاتا ہے اور وہ بھی کسی معاہدے کے بغیر۔ آپ کو ماہانہ فیس ادا کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ آپ پانچ سو روپے کا کارڈ خرید کر کئی مہینے گزار سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں “مس کال” آپ کے موبائل فون کا خرچ گھٹانے میں بہت بڑی معاون ثابت ہوتی ہے۔ موبائل پر کال سننے کیلیے چارجز ادا نہیں کرنے پڑتے۔ اسی لیے اگر لکڑ ہارے یا جوتے پالش کرنے والے موبائل پر بات کرتے نظر آئیں گے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی جبیب سے کچھ خرچ ہورہاہے۔ کال سننے کی سہولت جو پاکستان میں عام ہے امریکہ اور کینیڈا میں اس کا تصور ابھی مشکل ہے۔ امریکہ میں ایسی سہولت اب عام ہورہی ہے مگر ابھی تک ان ملکوں میں موبائل کنکشن کے ماہانہ چارجز لیے جاتے ہیں۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ پاکستان میں موبائل کمپنیاں کس طرح ماہانہ چارجز کے بغیر منافع بخش بزنس کررہی ہیں۔

پاکستان میں موبائل چھیننے کی وارداتیں اتنی عام ہوچکی ہیں کہ ہر شہر میں روزانہ درجنوں فون چھینے جارہے ہیں۔ پولیس والے بھی موبائل فون چھیننے کی واردات  کو کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ الٹا مقدمہ درج کرنے کیلیے درخواست گزار سے رشوت مانگنا شروع کردیتے ہیں۔ موبائل فون میں فون ٹریک کرنے کی ٹیکنالوجی کے باوجود فون چھیننے کی وارداتوں میں کمی نہیں آئی۔ یہ چھینے ہوئے موبائل فون ہر مارکیٹ میں سستے داموں دستیاب ہیں اور لکڑہارے، جوتے پالش کرنے والے اسی مارکیٹ سے چھینے ہوئے فون  سستے داموں خرید کر دو اڑھائی سو کے عوض موبائل فون کی سروس لے لیتے ہیں اور پھر “مس کال” کی سہولت استعمال کرنے لگتے ہیں۔

اگر موبائل چھیننے کی وارداتوں پر قابو پا لیا جائے یا چھینے ہوئے موبائل فون کو دوبارہ استعمال کرنے کی پابندی کی ٹيکنالوجی استعمال کی جائے تو پھر موبائل فون عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی دن موبائل کمپنیوں نے پے فون مہنگے کردیے اور ان کے مقابلے میں موبائل فون پر ماہانہ فیس مقرر کردی تب بھی عام آدمی موبائل رکھنے سے کترانے لگے گا۔

اب تو حالت یہ ہے کہ گھریلو زمینی فون کے مقابلے میں موبائل فون رکھنا زیادہ سستا ہے اور پھر ہر وقت آپ کے پاس رہتا ہے۔ اگر موبائل فون کی ترقی کی یہی رفتار رہی تو ایک دن زمینی فون ختم ہوجائیں گے۔

ابھی آج کے سروے میں جہاں صرف ستائیس فیصد لوگوں نے مشرف کو دوبارہ صدر بننے کی خواہش ظاہر کی ہے وہیں ستر فیصد لوگوں نے مہنگائی کو عوام کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ اگر بقول حکومت کے موبائل فونوں کی بہتات نے ملک میں خوشحالی برپا کردی ہے تو پھر عوام کی اکثریت مہنگائی کا رونا نہ رو رہی ہوتی۔

ثابت یہی ہوا کہ موبائل فون کی فراوانی پاکستان کی ترقی کا پیمانہ نہیں ہے۔ اگر یہ ترقی کا پیمانہ ہوتا تو پھر جوتے پالش کرنے والا پیدل چلنے کی بجائے، موٹر والی ریڑھی چلا رہا ہوتا یا اس کا اچھا سا ٹھکانہ ہوتا۔ اسی طرح لکڑ ہارا سائیکل کی بجائے موٹر سائیکل پر لکڑیاں لے کر جارہا ہوتا اور صرف بنیان میں نہ گھوم رہا ہوتا۔ لکڑہارے کی تصویر پر کسی نے بہت اچھا بتصرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ” بینظیر صاحبہ، دیکھ لیں ہم نے وردی اتار دی ہے، اب تو آپ مان جائیں”