پچھلے ہفتے ہمارے ایک جاننے والوں کی دادی سو سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ سب لوگ جہاں ان کی دادی کی وفات پر افسوس کا اظہار کررہے تھے وہیں وہ وفات پانے والی کی لمبی عمر کی خوش قسمتی پر بھی تبصرے کررہے تھے۔ دادی کی ایک بیٹی اور ا س کا شوہر بھی کافی عرصے سے بیمار تھے۔ جونہی دادی کی موت کی خبر ان کی بیمار بیٹي کو ملی وہ بھی وہیں پر فوت ہوگئیں۔ ابھی دونوں خواتین کے کفن دفن کا بندوبست بھی نہیں ہوا تھا کہ بیٹی کے شوہر بھی اپنی بیوی کی وفات کا صدمہ برداشت نہ کرسکے اور وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس طرح کم ہی ہوا ہے کہ ایک شخص کی وفات دو مزید اموات کا سبب بنی ہو۔ یہ انہونی ہمیں اپنے ماضی کی طرف لے گئ اور ہمیں اسی طرح کی بہت سی دوسری انہونیاں بھی یاد آگئیں جو ایک طرف اگر فلمی کہانیوں کا حصہ لگتی ہیں تو دوسری طرف قدرت کے آگے انسان کی بے بسی کو بھی آشکارا کرتی ہیں۔

کل ایک شادی کی تقریب میں ایک پرانے رفیق سے ملاقات ہوئی۔ یہ شخص چند سال قبل پاکستان گیے اور وہاں سے ہیپاٹائٹس کا تحفہ اپنے ساتھ لے آئے۔ پہلے ایک دو سال تو مغرب کے ڈاکٹروں کو ان کی بیماری کی سمجھ ہی نہ آئی۔ طارق صاحب دنوں میں بستر مرگ پر پڑ گئے اور ہر دیکھنے والا ان کی موت کی خبر کا انتظار کرنے لگا۔ ڈاکٹر بھی ان کی زندگی سے مایوس ہوگئے۔ بھلا ہو ان کے ایک  معالج کا جو ایک انڈین ڈاکٹر ہیں جنہوں نے ضد کرکے ان کے جگر کے ٹرانسپلانٹ کی سفارش کردی۔ مغرب میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کیلئے مریضوں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے اور انہیں کئ کئ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران کئ مریض وقت پر جگر دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے فوت ہوجاتے ہیں۔ طارق صاحب کی قسمت نے ساتھ دیا اور ہسپتال میں داخل ہونے کے ایک ہفتے کے اندر اندر چار جگر ٹرانسپلانٹ کیلیے لائے گئے۔ اس وقت بھی ڈاکٹروں کی اکثریت نے طارق صاحب کا رسکی آپریشن کرنے سے انکار کردیا مگر ایک ڈاکٹر نے حامی بھرلی۔  طارق صاحب ٹرانسپلانٹ کے ایک ہفتے بعد مکمل صحت یاب ہوگئے اور آپریشن کرنے والا ڈاکٹر اس معجزے کو اپنے ساتھیوں کو دکھائے نہیں تھکتا تھا۔

ایک جاننے والے کے ماموں جی ٹی روڈ پر ایک حادثے میں ایک زخمی کیلیے گھر سے چارپائی لے کر آئے۔ ابھی وہ زخمی کو چارپائی پر ڈالنے ہی والے تھے کہ ایک وین نے انہیں سائڈ ماردی۔ وہ اسی چارپائی پر گرے اور وہیں پر فوت ہوگئے۔ ان کے عزیز اسی چارپائی پر ان کی لاش گھر لے گئے۔

ہمارے ایک جاننے والے زرعی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر اور حافظ قرآن ہیں۔  ان کی بیوی ایک دن بیمار ہوئی اور قومے میں چلی گئ۔ ڈاکٹروں نے مریضہ کو لاعلاج قرار دے دیا اور سب لوگ اس کی موت کا انتظار کرنے لگے۔  حافظ صاحب نے اپنی بیوی کے بستر کے پاس روزانہ بلاناغہ تلاوت کلام پاک شروع کردی۔ انہوں نے ایک دن میں پورا قرآن پاک ختم کرنا اپنی عادت بنا لی۔ قدرت خدا کی دو ہفتوں بعد ان کی بیوی کو دوبارہ ہوش آگئ اور وہ دو چار دنوں میں مکمل صحت یاب ہو کر ہسپتال سے گھر آگئ۔ اس بات کو چھ سال ہوچکے ہیں اور حافظ صاحب کی بیوی اب بھی حیات ہیں۔ دونوں میاں بیوی بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔

ایک عزیزہ کا بیٹا ہیپاٹائٹس کا شکار ہوا اور کئ سال بیمار رہا۔ وہ مریض اپنی بیوہ ماں کا بہت خیال رکھا کرتا تھا۔ وہ بتایا کرتا تھا کہ وہ دن میں ایک دفعہ روٹی کھاتا ہے اور اس طرح جو بچت ہوتی ہے وہ اپنی ماں کو گھر کے خرچے کیلیے بھیج دیتا ہے۔ عزیزہ نے اس کی بہت زیادہ تیمار داری کی۔ ایک دن اچانک اسے خون کی قے آئی اور وہ فوت ہوگیا۔ موت کے بعد اس کی ماں کو چپ سی لگ گئ اور وہ گم سم رہنے لگی۔ ابھی بیٹے کا چالیسواں ہوئے ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ بیچاری ماں بھی فوت ہوگئ۔

ہمارے ایک قریبی دوست بتاتے ہیں کہ بچپن میں وہ اتنے سخت بیمار ہوئے کہ ڈاکٹروں نے انہیں لاعلاج قرار دے دیا۔ گھر والوں نے ان کے کفن دفن کے انتظام کیساتھ ساتھ ان کی قبر بھی تیار کروالی اور وہ ہسپتال میں ان کی موت کا انتظار کرنے لگے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ وہ صحت یاب ہونے لگے اور ایک ماہ کے اندر اندر چل کر وہ گھر آگئے۔  وہ دن اور آج کا دن وہ کبھی بیمار نہیں ہوئے۔

ابھی پچھلے ماہ ہماری ایک ہمشیرہ دبئی میں کسی پہاڑی مقام پر سیر کرنے اپنے شوہر اور دوسرے عزیزوں کیساتھ گئیں۔ واپسی پر جیپ میں پرابلم پیدا ہوئی اور ڈرائیور جو خود بھی آٹو مکینک تھا نے رک کر جیپ کا معائنہ کیا۔  پتہ چلا کہ بریک آئل لیک کررہا ہے۔ اس نے اسے ٹھیک کیا اور سب سے کہا کہ وہ گاڑی میں بیٹھیں اور وہ ٹرائل کے طور پر گاڑی چلا کر دیکھتا ہے۔ اس نے جونہی گاڑی چلائی، گاڑی نے ڈھلوان کی وجہ سے سپیڈ پکڑ لی اور اس کی بریک فیل ہوگئیں۔ پورے پندرہ منٹ کی تگ و دو کے بعد گاڑی ایک پتھر کیساتھ ٹکرا کر رک گئی۔ ان پندرہ منٹوں میں ہر مسافر پر قیامت برستی رہی اور وہ ہر لمحے یہی سمجھتے رہے کہ ابھی کھائی میں گرے سو گرے۔ کئی دفعہ تو ایک دو لوگوں نے چلتی جیپ سے چھلانگ لگانے کی بھی کوشش کی مگر ڈرائیور نے حفاظت کے طور پر دروازہ نہیں کھولا۔ اس حادثے کے بعد کتنے دن سب پر خوف طاری رہا اور انہیں ماہر نفسیات سے رجوع کرنا پڑا۔ ماہر نفسیات کے کہنے پر سب نے چند دنوں کی چھٹی لی اور پاکستان ميں اپنے خاندان والوں سے ملکر آۓ۔

یہ سچ ہے کہ موت اور زندگی خاد کے ہاتھ میں ہے۔