پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹونٹی 20 ورلڈ کپ کیلیے ٹیم کا اعلان کردیا ہے اور پاکستان واحد ملک ہے جس نے نئے خون کو اس ٹورنامنٹ میں آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹیم سے محمد یوسف اور عبدالرزاق کو ان کی کمزور فیلڈنگ کا بہانہ بنا کر شامل نہیں کیا گیا۔ ہمارے خیال میں ان دونوں تجربہ کار کھلاڑیوں کی غیرموجودگی پاکستان کیلیے نقصان دہ ہوگی کیونکہ کتنے بھی کم اوورز کا میچ کیوں نہ ہو تجربہ ہی اکثر میچ جتواتا ہے۔ اگر جوان خون کی شمولیت کا بہانہ بنا کر عبدالرزاق اور محمد یوسف کو ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تو پھر یونس خان کو بھی ڈراپ کردینا چاہئے تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک بار پھر سلمان بٹ کو ٹیم میں شامل کرکے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے سلمان بٹ اور عمران نذیر ایک بہترین اوپننگ جوڑی ثابت ہوں گے۔ ٹیموں کی کارکردگی ميں اوپننگ جوڑی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اب تک پاکستان کی ناکامی کی وجہ اوپننگ جوڑی کی خراب کاکردگی ہی رہی ہے۔

محمد حفیظ بولنگ اور بیٹنگ میں اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ مانا کہ وہ جوان ہیں اور انٹرنیشنل کرکٹ میں ان کا تجربہ زیادہ نہیں ہے مگر ہم امید کرتے ہیں کہ وہ نپی تلی سپن بولنگ سے زیادہ رن نہیں بننے دیں گے۔

یونس خان ایک منجھے ہوئے بیٹسمین ہیں اور جارحانہ بیٹنگ کے ماہر ہیں۔ اگر وہ اپنی فارم میں رہے تو پاکستانی ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکانات روشن ہیں۔

کپتان شعیب ملک بھی ایک آل راؤنڈر ہیں مگر ان کی بیٹنگ ٹیم کیلیے بہت اہمیت کی حامل ہوگی۔ اگر انہوں نے ورلڈ کپ جیتنا ہے توپھر انہیں سنبھل کر بیٹنگ کرنا ہوگی۔

مصباح الحق جنہیں محمد یوسف کی جگہ شامل کیا گیا ہے ایک نئے کھلاڑی ہی اور ان کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہیں کئ سال بعد دوبارہ موقع دیا جارہا ہے۔ نئے خون کا کلیہ ان پر بھی پورا نہیں اترتا کیونکہ ان کی عمر 33 سال ہے جو محمد یوسف کی عمر کے برابر ہے۔ اس طرح محمد یوسف کو ڈراپ کرکے مصباح الحق کو کھلانا کسی سازش کا حصہ لگتا ہے۔ کہیں محمد  یوسف کی داڑھی تو ان کی راہ میں حائل نہیں ہوگئ کیونکہ آج کل داڑھی ہی حکومت کی نظر میں تمام مسائل کی جڑ ہے ۔  ہم امید کرتے ہیں کہ مصباح تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔

شاہد آفریدی گلی ڈنڈہ ٹائپ کھلاڑی ہیں اور وہ بناں تکنیک کے کھیلتے ہیں۔ اگر وہ چند منٹ کریز پر رکے رہے تو پاکستان کیلیے نیک شگون ہوں گے وگرنہ پہلے اوور میں آؤٹ ہو کر ٹیم کو خطرات میں گھیرے رکھیں گے۔ ان کی باؤلنگ سے زیادہ بیٹنگ پاکستانی ٹيم کیلیے زیادہ اہم ہے اور اسلیے انہیں حوصلے اور تکنیک کے ساتھ بیٹنگ کرنی پڑے گی۔

کامران اکمل کچھ عرصے سے فارم میں نہیں ہیں اور اگر جوان خون کا فارمولا بلا امتیاز اپنایا جاتا تو وہ بھی اس کی زد میں آ جاتے۔ کیونکہ اس وقت ان کی وکٹ کیپنگ انٹرنیشنل معیار کی نہیں ہے اور اگر ٹوئنٹی 20 ٹورنامنٹ میں ایک بھی کیچ ڈراپ کردیا تو پاکستان کو میچ جیتنا مشکل ہوجائے گا۔ کامران اکمل ایک اچھے بیٹسمین ہیں مگر آؤٹ آف فارم ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ موجودہ ٹریننگ ان کو فارم ميں واپس لانے میں ممد و معاون ہوگی۔

فواد عالم کو عبدالرزاق کی جگہ پر چنا گیا ہے اور ان سے یہی امید کرنی چاہیے کہ وہ سیلیکٹرز کی امیدوں پر پورے اتریں گے۔ ویسے عبدالرزاق ان سے بہتر اور تجربہ کار کھلاڑی تھے اور ان کی جگہ پر کھیلنا فواد کیلیے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

پاکستانی ٹیم کو ٹورنامنٹ میں اگر کسی نے زندہ رکھا تو وہ باؤلرز ہوں گے۔ کیونکہ پاکستانی بنیٹنگ لگاتار اچھے کھیل کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ باؤلر ہی ہوں گے جو مخالف ٹيم کو کم سکور کرنے دیں گے اس طرح ہمارے بیٹسمین بغیر دباؤ کے اچھی کارکردگی کا مظاہر کرسکیں گے۔ اگر شعیب اختر، عمر گل، محمد آصف اور راؤ افتخار نے مخالف ٹیم کو چھکے لگانے سے نہ روکا تو پھر پاکستان کی بیٹنگ بے بس ہو گی اور ٹیم میچ جیت نہیں سکے گی۔

اگر پاکستانی ٹیم کا دوسری ٹيموں سے موازنہ کیا جائے تو ہماری ٹيم سب سے زیادہ ناتجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ گرم خون تبھی اچھی کارکردگی دکھا سکتا ہے اگر اسے تکنیک اور تجربے کی چاشنی میسر ہو۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ٹیم کے تجربہ کار کھلاڑی نئے کھلاڑیوں کے حوصلے بڑھاتے رہیں گے اور اپنے تجربے سے انہیں فائدہ پہنچائیں گے۔

لگتا ہے پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی جے میر  کی اس رپورٹ کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی ٹيم نے کھیل سے زیادہ  اسلام کے ایک رکن نماز اور تبلیغ پر زیادہ توجہ دی اور ورلڈ کپ سے باہر ہوگئ۔ محمد یوسف کی ٹیم سے علیحدگی کے بعد ہمیں اس بات پر حیرانی ہوئی کہ شاہد آفریدی کو ٹیم میں کیوں شامل رکھا گیا حالانکہ وہ بھی پچھلے سال حج کرکے آئے ہیں اور پانچ وقت کے نمازی ہیں۔ ہاں موجودہ ٹيم کی ظاہری شکل و صورت مذہبی رجحان کی عکاسی نہیں کرتی اور اس دفعہ ہو سکتا ہے  کہ ٹیم کے اکثر کھلاڑی نائٹ کلبوں میں جاکر میڈیا کی شہ سرخیوں میں اپنی جگہ بنائیں گے اور اپنی پرانی روایت کو زندہ کردیں گے۔

اس دفعہ چونکہ ٹيم میں مذہبی رجحان کم ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ نمازوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ٹیم کو پریکٹس کا زیادہ موقع ملے گا اور وہ کھیل میں یکسوئی برقرار رکھتے ہوئے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔  نماز اور تبلیغ سے ان کی توجہ جو کھیل سے ہٹ جاتی تھی، اب کرکٹ بورڈ کی یہ شکایت ختم ہوجائے گی۔

آئیں پاکستانی ٹيم کی جیت کیلیے ہر نماز کے بعد دعا کو اپنا معمول بنا لیں۔ لیکن یاد رہے کہ ہماری” دعا” تب تک بے اثر رہے گی جب تک ہماری ٹيم اپنی کمزوریوں پر توجہ نہیں دے گی یعنی اپنی بیماری کی” دوا” تجویز نہیں کرےگی۔