حکومت کے تین معتبر نمائندوں اور سیاستدانوں کے بیانات پڑھیے اور فیصلہ خود کیجئے کہ جنرل مشرف کو ایمرجنسی کے نفاذ کا غلط مشورہ دینے والا نالائق کون تھا اور اتحادی جماعتوں سے کیا مراد ہے؟

وزیر اطلاعات محمد علی درانی فرماتے ہیں “ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے مشورے صدر پرویز مشرف کو حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے نمائندوں، مختلف سیاسی حلقوں اور معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے دیے تھے۔ صدر مشرف پر ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کے لیے زبردست دباؤ تھا تاہم انہیں غلط مشورہ دیا جارہا تھا جو انہوں نے سختی سے مسترد کردیا”

مسلم لیگ ق کے سیکریٹری جنرل اور سینٹر سید مشاہد حیسن کہتے ہیں ‘ایمرجنسی کا کوئی خطرہ نہیں ہے، اگر کسی نے ایمرجنسی کی بات کی ہے تو وہ ملک، صدر اور حکومت کا خیرخواہ نہیں ہے۔ کوئی نالائق آدمی ہی ایسا مشورہ دے سکتا ہے۔ یہ وہی نالائق لوگ ہیں، جنہوں نے چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس کا مشورہ دیا تھا۔”

مسلم لیگ ق کے صدر اور سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے فرمایا ” اگر ملک میں ایمرجنسی لگا دی جاتی تو لال مسجد جیسے واقعات رونما نہ ہوتے۔ وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ پر قاتلانہ حملے، دہشت گردی اور افواج پاکستان کے جوانوں کی شہادت کے واقعات اور اسلام آباد میں دھماکوں کے بعد پیدا شدہ حالات کے تناظر میں صدر مملکت جنرل پرویز مشرف کو جزوی ایمر جنسی کے نفاذ کی تجویز پیش کی تھی اور یہ تجویز صرف میری نہیں بلکہ اور لوگوں کی بھی تھی جو یہ تجویز لے کر میرے پاس بھی آئے تھے اور صدر مملکت کے پاس بھی گئے۔ بعض سیاستدان نیک نیتی سے ملکی حالات کے تناظر میں یہ تجویز دے رہے تھے۔” 

ہمارے خیال میں حکومتی سیاستدان جو اپنی حکومت کی طوالت کے بہانے تلاش رہے  ہیں اور جنرل مشرف کی آفیت ان کے وردی ميں رہنے میں سمجھتے ہیں وہ ایمرجنسی لگانے پر زور دے رہے تھے۔ بقول مشاہد حسین یہی لوگ نالائق ہیں۔

 ان لوگوں کے پاس ایمرجنسی لگانے کا بہترین موقع اس وقت تھا جب لال مسجد کے سانحے کے بعد ملک میں خود کش حملے ہونے لگے تھے۔ یہ موقع انہوں نے گنوا دیا اور اب پچھتا رہے ہیں۔

اکثریت کی رائے یہی ہے کہ اب جنرل مشرف کی حکومت ٹکنے والی نہیں کیونکہ سارے سروے ان کیخلاف جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ وکلاء لاہور میں جو ریفرنڈم کرارہے ہیں اس میں بھی محسن پاکستان عبدالقدیر خاں کے مقابلے میں جنرل مشرف بری طرح ہار رہے ہیں۔ جنرل مشرف کیلیے یہی اب مناسب ہے کہ وہ اگر آنے والے دنوں میں رسوائی سے بچنا چاہتے ہیں تو خاموشی سے شفاف انتخابات کرائیں اور حکومت عوامی نمائندوں کو سونپ کر ریٹائر ہوجائیں۔