اس تصویر کی خوبی بزرگ کی محنت کے دوران باریش چہرے سے جھلکتا اطمینان اورپرسکونیت ہے۔ بزرک اس عمر میں بھی جوانوں سے بڑھ کر بوجھ کھینچ رہا ہے۔ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ جن لوگوں نے بھی محنت و مشقت والی زندگی گزاری وہ صحت مند رہے اور دفاتر میں کام کرنے والے جو اپنی توند کو بڑھنے سے نہ روک سکے جلد بیماریوں کا شکار ہوگئے۔

 بوڑھوں کی انہی محرومیوں کو دیکھ کر سپریم کورٹ نے ایکشن لیا اور کل حکومت  کو بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنے کا وعدہ کرکے اپنی جان چھڑانی پڑی۔ امید ہے حکومت وعدہ کے مطابق بوڑھوں کی فلاح کا بل جلد پاس کرائے گی۔

ویسے اس بل کی خصوصیات جو حکومت نے بیان کی ہیں کا حقیقت سے دور کا بھی  واسطہ نظر نہیں آتا اور ان سہولتوں کو دیکھ کر لگتا ہے ہم پاکستان میں نہیں بلکہ جنت میں رہ رہے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے ان  سہولتوں کا ٹارگٹ ریٹائر ہونے والے سیاسی وزیر مشیر اور سرکاری افسر ہوں جو ان سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔

پتہ نہیں حکومت اس طرح کے فلاحی کاموں پر توجہ دیتے ہوئے کیوں کتراتی ہے۔ بزرگوں کے خیال کے بل تو حکومت کے وجود میں آتے ہی ہوجانے چاہیے تھیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اگر کبھی کوئی فلاحی کام کسی حکومت نے کیا بھی ہے تو اس کے بیچھے کوئی حادثہ ہوتا ہے یا پھر کوئی ذاتی مفاد۔ خدا کرے آئندہ آنے والی حکومتیں فلاحی کاموں کی طرف توجہ دیں اور ضرورتمندوں کی دعاؤں سے اپنے دامن بھر لیں۔ 

 اگر حکومت مندرجہ ذيل سہولتیں بزرگوں کو پہنچانے میں کامیاب ہوگئی تو پاکستانی بوڑھے حکومت کا احسان کبھی نہیںبھول پائیں گے۔

بزرک شہریوں کی پینشن ادائیگی کی مقررہ تاریخ سے قبل ہی ادا کردی جائیگی، انکے لیے خصوصی کاؤنٹر بنائے جائیں گے، عوامی ہسپتالوں میں ان کے علاج معالجے کیلیے الگ وارڈ قائم کئے جائیں گے، ہوائی اور سڑک کے سفری کرایوں ميں 20 فیصد اور ریل کے کرایہ میں 50 فیصد رعایت دی جائے گی۔ نجی شعبہ میں بزرگ کا الگ کوٹہ مقرر کیا جائیگا، پبلک پارکوں، عجائب گھروں، چڑیاگھروں، سینماؤں، تھیٹرز اور عوامی لائبریریوں میں انکا داخلہ مفت ہوگا۔ زندگی میں ایک مرتبہ حج کرانے کیلیے کوٹہ مختص کیا جائیگا۔ بزرگ شہریوں کو ٹیلیفون، بجلی، سوئی گیس، پانی سپلائی کے بلوں میں 10 فیصد رعایت دی جائیگی اور زیادہ سے زیادہ انہیں ایک ہزار روپے تک بل بھیجا جاسکے گا۔ انہیں وفاقی اور صوبائی سطح پر ایک جیسی سہولیات حاصل ہوں گی۔ انہیں ماہانہ 3 ہزار روپے وضیفہ دیا جائے گا، انکے لیے بنکوں، ڈاکخانوں، پی آئی اے اور ریلوے میں خصوصی کاؤنٹر بنائے جائیں گے۔ حکومتی محکموں میں بزرگ شہریوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ رعایت کے حوالے سے معلوماتی بورڈز لگائے جائیں گے۔ سالانہ انکم ٹیکس کی ادائیگی میں 50 فیصد رعایت دی جائے گی، ان کی خدمات کو انٹرنیٹ پر بھی پیش کیا جائیگا، تھانوں اور جیلوں میں بزرگ شہریوں کیلیے ایک سیل بنایا جائے گا جہاں انہیں واش روم کی سہولت حاصل ہوگی، عدالتوں میں مقدمات کے حوالے سے بھی انہیں ترجیح دی جائے گی، لوکل زکوٰة اور عشرکمیٹیوں میں دو ممبران بزرگ شہری ہونگے، پبلک سیکٹر میں مکانات کے کرائے کی مد میں 20 فیصد رعایت حاصل ہوگی۔ یتیم بچوں کی شادیوں کے حوالے سے شادی ہالوں میں عوامی اور پرائیویٹ سیکٹر میں 20 فیصد رعایت حاصل ہوگی۔ وزارت خارجہ کی جانب سے 5 سال کا سیاحتی ویزہ دلایا جائیگا۔ غریب ہونے کی صورت میں بزرگ شہریوں کو انکی بچیوں کی شادی کے اخراجات میں مدد دی جائیگی، غیر ممالک میں علاج کیلیے سہولیات دی جائیں گی۔ بیرونی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کیلیے بچوں کو وظائف دلوائے جائیں گے۔ ڈرائیونگ اور اسلحہ لائسنس دیا جائیگا، نمازوں کیلیے مسجدوں میں سٹول اور ویل چئیرز فرام کی جائیں گی۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور دوسرے اداروں کے ذریعے بزرگ شہریوں کی عزت و احترام کے حوالے سے اور آخری عمر میں مشکلات سے نمٹنے کے حوالے سے پروگرام متعارف کرائے جائیں گے، انکی مشکلات اور پریشانیوں کی شناخت کی جائیگی، کونسل یہ بھی یقینی بنائے گی کہ حکومت وقت کیساتھ ساتھ بزرگ شہریوں کی سہولیات میں اضافے کے نوٹیفکیشن جاری کرتی رہے۔ ابتدائی بنیادوں پر وفاقی حکومت کے فنڈز میں اس مد میں ایک بلین روپے رکھے جائیں گے، غیرملکی اور پرائیویٹ تنظیموں، انفرادی اور اجتماعی سطح پر امداد بھی حاصل کی جائیگی۔